Maktaba Wahhabi

303 - 389
جائے گا۔بلکہ کوئی بھی قول کسی کی طرف منسوب نہیں کیا جائے گا جب تک کہ اس قول کا اس سے منقول ہونا ثابت نہ ہوجائے یا کوئی دلیل مل جائے جس سے پتہ چلے کہ یہ قول اسی نے کہا ہے۔ پھر آگے جاکر مزید لکھتے ہیں : "وقد قال بعضهم السنة کذا وإنما یعنی إن ذلك هو السنة عنده على ما اداه إلیه اجتهاده." [1] اور جب بعض نے کہا کہ سنت ایسے ایسے ہے تو اس کا معنیٰ یہ ہوتا تھا ان کے اجتہاد کے مطابق یہ چیز ان کے نزدیک سنت شمار ہوتی ہے ۔ اپنے موقف کی تائید اس حدیث سے حاصل کرتے ہیں جس میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عہدنبوی میں ہم امہات الاولاد کی خرید و فروخت کیا کرتے تھے لیکن پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں اس سے منع کردیا تو ہم رک گے۔ [2] مذکورہ بالا عبارت کی وضاحت میں ابو زہرہ لکھتے ہیں: ’’سنت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اسی صورت میں منسوب ہوگی جب عادل راوی اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واضح طور پر کرے ۔ اسی لیے ابن حزم السنۃ کذا اور امرنا بکذا کو بھی حدیث پر محمول نہیں کرتے بلکہ ظاہری الفاظ پر عمل کرتے ہوئے اس سے یہ مراد لیتے ہیں کہ صحابی کی نگاہ میں یہ معاملہ یو ں ہے۔‘‘ [3] لیکن بات یہ ہے کہ صحابی اگر یہ کہے کہ ہمیں حکم دیا جاتاتھا یا سنت یہ ہے تو اسے مرفوع ہی سمجھنا چاہئے الاکہ اس کے موقوف ہونے کی دلیل مل جائے۔
Flag Counter