Maktaba Wahhabi

56 - 389
الْحَقِيقَةِ، لِظُهُورِ دَلَائِلِه، وَوُضُوحِ آيَاتِهِ"[1] ’’اجتہاد مجتہد کے اپنےمقصود کی خاطرتلاش وجستجو اور طاقت سعی کرنے کوکہتےہیں ۔ جبکہ عرف علماء میں اجتہاد اس کاوش کا نام ہے جوپیش آمدہ مسائل میں مقصود خداوندی کے تعین میں کی جائے جس پر کوئی الٰہی دلیل پہ صراحتاً موجود نہ ہو کیونکہ جس مسئلہ پر دلیل خود باری تعالیٰ قائم کر دیں اس سے کیے گئےاستدلات کواجتہاد کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے علم توحید اور تصدیق رسالت نبوی کے بارے میں یہ نہیں کہا جائےگا کہ یہ دائرہ اجتہاد کے پابند ہیں ۔ ایسے ہی پردہ حکم جس کے بارے میں واضح دلیل شرعی موجود ہے اسے اجتہاد نہیں کہا جائےگا۔ لہٰذا عرف عام میں اور اہل علم کے ہاں انسان کا اپنے ظن و تخمین اور اتنہائی کوششوں کو صرف مطلوب الٰہی کے تعین میں صرف کرنے کو کہتے ہیں نہ کہ اس تک بعینہ پہنچ جانے کا نام ہے۔ چناں چہ اگر مجتہد نے اپنی کاوش وجہد صرف کردی تو اس نے اپنا مطلوب ذمہ داری ادا کردی اور جس چیز کے درست اور حق ہونے کی طرف اس کا ظن غالب گیا وہ اس نے بیان کر دیا ۔ علم توحید اور دیگر ایسے علوم جن کےدلائل خدا تعالیٰ نے خود بیان فرما دئیے ہیں اس سلسلے میں ہماری ذمہ داری فقط یہ ہے کہ ان کی روشنی میں اس حقیقت تک رسائی حاصل کریں۔‘‘ مذکورہ تعریف میں امام ابوبکر جصاص نے چند ایک چیزوں پرروشنی ڈالی ہے: اول: اجتہاد ان معاملات میں ہوتا ہے جن کےبارےمیں شریعت کے واضح دلائل موجودہیں۔ دوم:جن امور کے متعلق شریعت نےدلائل ذکر کردئیےہیں وہ مجتہد کےدائرہ عمل سےخارج ہیں۔ سوم: مجتہد کااجتہاد کے ذریعے مقصودِ خداوندی کو تعین کرنا ہوتا ہے۔ چہارم:مجتہد کی کدوکاوش کالازمی نتیجہ یہ نہیں ہے کہ وہ مطلوب شریعت یا مقصود تعین میں کامیاب ہوگیاہے بلکہ اس کا ظن غالب یہ ہوتاہے جو اس نے معلوم کیاہے وہ مقصود شارع ہے۔[2] پنجم:وہ امور کہ جن کے بارے میں شرعی رہ نمائی موجود ہوتی ہے اس میں مطلوب اس حقیقت تک رسائی ہے جو ان دلائل میں بیان ہوئی ہوتی ہے۔ علامہ سعد الدین بن عمر تفتازانی (متوفی ۷۹۲ھ) نے تعریف اجتہاد کے ساتھ ساتھ دائرہ اجتہاد بھی تعین کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ ان کا خصوصی امتیاز ہے۔لکھتے ہیں: "وَفِي الِاصْطِلَاحِ اسْتِفْرَاغُ الْفَقِيهِ الْوُسْعَ لِتَحْصِيلِ ظَنٍّ بِحُكْمٍ شَرْعِيٍّ، وَهَذَا هُوَ الْمُرَادُ
Flag Counter