Maktaba Wahhabi

242 - 389
اس کے عدم جواز اور بطلان کی دلیل ہے۔[1] سی طرح جزیہ کی کم از کم مقدار ایک دینار ہے ۔ اس کا مدار ایک مرسل روایت پر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو ہر بالغ مرد اور عورت سے ایک دینار جزیہ لینے کا حکم دیا۔ [2] 4 - احکام میں مسلمانوں کی برابری پر اجماع یہ اجماع سے اخذ شدہ دلیل کی چوتھی قسم ہے۔ اس کی اساس اس قاعدے پر ہے کہ جب ایک شرعی حکم وارد ہو تو وہ سب مسلمانوں کے لیے ہے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عمومیت کی حامل ہے؛ اس کا تعلق کسی خاص خطے یا زمانے کے لوگوں سے نہیں ہے بل کہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں سے ہے۔ اس لیے اگر کسی ایک خاص شخص کو حکم دیا جائے تو وہ بھی سبھی کے لیے ہو گا؛ اس پر تمام اہل اسلام کا اجماع ہو چکا ہے۔ رضاعت کبیر کی مثال اس کی مثال حضرت سالم رضی اللہ عنہ کے غلام کی رضاعت سے متعلقہ حدیث ہے کہ اسے بالغ ہونے کے باوجود زوجہ سالم رضی اللہ عنہ نے دودھ پلایا جس کی اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی تاکہ وہ ان پر حرام ہو جائے اور پردے کا مسئلہ نہ رہے۔ (صحیح مسلم کتاب الرضاع ، باب رضاعۃ الکبیر) یہ حدیث اگرچہ خاص شخص کے متعلق ہے لیکن اہل ظاہر کے نزدیک اس کا حکم عام ہے اور بڑے لڑکے کو بھی اگر دودھ پلادیا جائے تو حرمت رضاعت ثابت ہوجاتی ہے کیوں کہ تمام مسلمانوں کے لیے شرع کا حکم ایک ہی ہوتا ہے۔ [3] دلیل کی بحث کے بعدابن حزم نے لکھا ہے کہ یہ وہ دلائل اور معانیِ نصوص ہیں جنھیں ہم بر تتے ہیں؛ یہ تمام دلائل نص کے تحت داخل ہیں اور ہمارا تصور دلیل نص یا اجماع سے کسی طور باہر نہیں ہے۔[4] ایک اشکال: دلیل کی علاحدہ حیثیت یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دلیل کااصول اگر نص یا اجماع سے ہی بنا ہے تو اسے الگ کیوں بیان کیا جاتا ہے؟ اور نص اور اجماع ہی کے تحت کیوں نہیں آتا؟ شیخ محمد ابو زہرہ نے اس کی یہ توجیہ کی ہے کہ نص سے ماخوذ دلیل ظاہر لفظ سے معلوم نہیں ہوتی بل کہ اس لفظ کے
Flag Counter