Maktaba Wahhabi

52 - 389
ماننا ہے جن کو عقل بدیہی معانی کےطور پر لیتی ہے اور ان کا لغوی مفہوم معروف و مشہور ہوتا ہے،وہ لکھتے ہیں : ’’اللہ کا دین بالکل ظاہر ہے اور اس میں کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔یہ سب کاسب روشن برہان اور کھلی ہوئی دلیل ہے جس میں کوئی نرمی نہیں برتی گئی ہے۔جوشخص بھی بلادلیل اتباع کی دعوت دے اسے متہم قرار دیا جائے۔دین میں خفا کی موجودگی کا دعویٰ محض دعویٰ ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔۔اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی کوئی بات نہ تو چھپائی ہے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی سِر،رمز، اور باطنی چیز تھی۔‘‘[1] منہجِ اجتہاد یہ بحث تفصیل سے اپنے مقام پرآئے گی تاہم یہاں اس کا اجمالی تذکرہ کیا جاتا ہے۔ میدان اجتہاد میں ابن حزم اپنے اصول رکھتے ہیں اور مذہب ظاہری کے امام داؤ د ظاہری سے بھی اختلاف کرتے ہیں۔ان کے طریقِ اجتہاد کے بنیادی خطوط کی نشان دہی کچھ یوں کی جا سکتی ہے: اولاً:ظاہری معنیٰ کی حدود میں ہوئے لغت کی واضح دلالت کے مطابق قرآن و وسنت کی نصوص سے تمسک۔ ثانیاً:اجماع صحابہ کو مصدر شریعت تسلیم کرنا۔اجماع کے ساتھ 'دلیل' بھی بطور مصدر شامل ہے جو نص یا اجماع سے استنباط کردہ چیز ہے۔ ثالثاً:قیاس ،استحسان، مصالح مرسلہ اور سد ذرائع کو کلیتاََ ترک کرنا۔ رابعاً:اقوال صحابہ میں مساوات۔کسی صحابی کا قول دوسرے پر ترجیح نہیں ہو سکتا بل کہ سب برابر ہیں۔یوں کسی کا قول بھی لے کر دوسرے کا قول ترک کیا جا سکتا ہے،اصل چیز شریعت ہے جو قابل قبول ہے۔قول کے مقابل فعل صحابی کا اعتبار ہو گا۔اگر ایک صحابی سے ایک قول مروی ہے اور اس کا عمل اس کے قول کے خلاف ہے تو عمل کو لیا جائے گا۔ خامساً:تقلید کی نفی؛کسی کے لیے حلال نہیں کی بلادلیل کسی کی بات قبول کرے اور تقلید بلا دلیل بات قبول کرنے کو کہتے ہیں۔عامی کو بھی تقلید کی ا جازت نہیں ہے۔[2] یوں ابن حزم کے مطابق مصادر شریعت قرآن و سنت کی نصوص کے بعد اجماع اور دلیل ٹھہرتے ہیں؛ قیاس ان کے نظامِ فکر میں جگہ نہیں پاتا۔ سادساً:ترکِ تعلیل؛حکم شرعی کی علل و وجوہ بتانے سے تعرض نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ شریعت عبادت کا معاملہ ہے اور معقول وہی ہے جسے اللہ معقول بتلائے۔
Flag Counter