Maktaba Wahhabi

53 - 389
طریقِ بحث مسئلہ ابتدا سے بیان کرتے ہوئے ابن حزم کا قاعدہ ہے کہ: اولاً: وہ شرعی حکم بتلاتے ہوئے آیات و احادیث اور ایسے اجماع سے استدلال کرتے ہیں جو ان کے مطابق ہر زمانے میں قائم رہا ہوتا ہے۔ ثانیاً: اس کے بعد اپنا فقہی موقف اور صحابہ و تابعین اور بعد کے ائمہ کے مواقف کا بیان ہوتا ہے۔ ثالثاً: تمام اقوال کو ان کے قائلین کے ناموں کے ساتھ بیان کرنے کے بعد ابن حزم اپنے نقطہ نظر سے ان کا تجزیہ کرتے ہیں ،قبول یا رد کا حکم لگاتے ہیں اوراپنے اور دیگر کے دلائل سے بحث کرتے ہیں۔ رابعاً:غرائب فقہ کے ساتھ ابن حزم کا شغف کافی زیادہ ہے۔ان کے ہاں صحابہ و تابعین و مابعدکے ادوار کے بہت سے غرائب و عجائب منقول ہیں جن سے فقہ اسلامی کی ہمہ گیری اور وسعت و نرمی کا اندازہ ہوتا ہے[1]۔ ابن حزم کا یہ طریقہ کار ان کی تمام کتابوں میں یکساں ہے ،بالخصوص المحلیٰ ان قواعد کی تطبیق کے سلسلے میں دیکھی جا سکتی ہے جس میں ابن حزم کے اصول ابتدا میں بیان ہوئے ہیں اور پھر پوری کتاب توحید اور ایمانیات سے فقہ عبادات و معاملات میں انہی خطوط پر استوار نظر آتی ہے۔ابن حزم نے فقہ میں کچھ نئی آرا ایسی ظاہر کی ہیں جنھیں ان کی اولیات کہا جا سکتا ہے۔ان آرا میں شادی کے لیے غلام اور آزاد میں مساوات،غلام کے لیے کاشت کاری کا حق،گانے بجانے کے حوالے سے ان کی مثبت راے،وراثت میں حصہ نہ پانے والوں کے لیے وصیت کے واجب ہونے کی راے اور دادا پر یتیم پوتے کے لیے وصیت واجب ہونے کی آرا شامل ہیں۔
Flag Counter