Maktaba Wahhabi

321 - 389
فصل دوم میں ابن حزم کے اصول اجتہاد کے تحت ،سنت کے مبحث میں گزر چکی ہے۔اس کے برعکس محدثین کے نزدیک ان تمام صورتوں کو حدیث مرفوع مانا جاتا ہے۔ خبر واحد کی حجیت اور اس سے استدلال کے سلسلے میں ابن حزم اور جمہور محدثین کا موقف قریباً یک ساں ہی ہے کہ یہ موجب علم ہے اور اس سے آیت قرآنی اور حدیث متواتر کی تخصیص یا تنسیخ ممکن ہے۔ اجماع:جمہور علما اور ابن حزم اجماع کے متعلق جمہور علما اور ابن حزم میں اس حد تک تو اصولی اشتراک پایا جاتاہے کہ اجماع حجت اور مصادر شریعت میں شامل ہے۔لیکن ابن حزم کے تصور اجماع کی رُو سے صرف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ ہی کا اجماع حجت ہے؛ ان کے بعد عملاً اجماع ممکن نہیں ہے کیوں کہ تمام علما کا استقصا نہیں ہو سکتا جب کہ ایک عالم بھی شامل نہ ہو تو اسے اجماع نہیں کہا جا سکتا۔نیز یہ محض متواتر اور بدیہی قسم کے معاملات ہی میں ہوتا ہے جیسے، اقرارِ شہادتین، نمازوں کی تعداد، روزوں کی فرضیت،حج کے ارکان، قرآن مجید کا ثبوت، مردار اور خنزیر کی حرمت وغیرہ۔ [1] علاوہ ازیں ابن حزم اجماع سکوتی کو بھی حجت نہیں مانتے جس کو حنفیہ کے یہاں استناد و حجیت کا درجہ حاصل ہے۔ اسی طرح امام مالک کے اجماع اہل مدینہ کو بھی معتبر نہیں مانتے۔ اجماع کے حوالے سے ابن حزم کا موقف بالکل ہی جداگانہ یا منفرد نہیں ہے بل کہ امام شافعی اور امام احمد کے نظریات سے کافی قریب ہے۔ امام شافعی نے لکھا ہے کہ میں یا کوئی بھی عالم کسی معاملے کے متعلق نہیں کہہ سکتا کہ یہ مجمع علیہ ہے جب تک کہ ہر عالم یہی بات نہ کہے اور اسے اپنے سے پہلے علما سے نقل نہ کرے جیسے یہ کہ ظہر کی چار رکعتیں ہیں اور خنزیر حرام ہے۔[2] محمد ابو زہرہ، اجماع کے متعلق امام شافعی کا ایک اقتباس نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’یہ امام شافعی کے الفاظ تھے؛ ابن حزم بعینہ یہی کہتے ہیں، یہاں تک کہ قاری یہ سوچنے لگتا ہے کہ ابن حزم نے یہ نظریہ امام شافعی سے اخذ کیا ہے۔ اور ابن حزم کی عظمت شان میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ امام شافعی علم استنباط کی تحقیق میں ابن حزم کے پیش رو تھے اور علم الاصول میں ان سے سبقت کر چکے تھے۔ علم الاصول پر جن علما نے کتابیں لکھی ہیں انھوں نے امام شافعی کے خرمن علم سے خوشہ چینی کی ہے۔‘‘[3] جہاں تک اس نکتے کا تعلق ہے کہ ایک آدھ کے اختلاف سے اجماع منعقد نہیں ہوتا تو شافعی علما کی بھی یہی راے ہے۔
Flag Counter