Maktaba Wahhabi

29 - 56
[وَلَا تَـقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ ١٥٤؁ ](البقرۃ:154) [وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ ١٦٩؁] (آل عمران:169) دونوں آیات شہداء کی زندگی میں نص ہیں اہل سنت کے مکاتب فکر سے کسی نے اس زندگی کا انکار نہیں کیا حضرت مولانا حسین احمدرحمہ اللہ فرماتے ہیں: آپ کی حیات نہ صرف روحانی ہے جو کہ عام شہداء کو حاصل ہے بلکہ جسمانی بھی ازقلیل دنیوی بلکہ بہت وجوہ سے اس سے قوی تر )مکاتیب جلد۱ ،ص۱۳۰ بحوالہ دارالعلوم نومبر ۵۷ء( مولانا شہداء کی زندگی کو روحانی سمجھتے ہیں اور انبیاء کی برزخی جسمانی زندگی کو اس سے قوی۔ ظاہر ہے کہ حسب ارشاد مولانا یہ آیت روحانی ، برزخی اور کمزور زندگی کے لیے دلیل بن سکتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیوی ، جسمانی طاقت ور زندگی اس سے بالکل مختلف ہے اس کے لیے آیت دلیل نہیں بن سکتی نہ ہی اس پر اس کا قیاس درست ہوسکتا ہے۔ آپ حضرات بھی جانتے ہیں کہ شہداء کی زندگی کے باوجود ان کی بیویاں نکاح کرسکتی ہیں ان کا ترکہ تقسیم ہوتا ہے اور انبیاء کی زندگی چونکہ قوی تر ہے اس لیے نہ ان کی ازواج نکاح کرسکتی ہیں نہ ان کا ترکہ تقسیم ہوسکتا ہے اندریں صورت یہ آیت اس کے لیے کیا دلیل ہوسکے گی؟ شہداء کی زندگی کے متعلق سورہ بقرہ میں لاتشعرون فرمایا ہے یعنی یہ زندگی تمہارے شعور سے بالا ہے آل عمران میں احیاء عند ربھم یرزقون فرمایا ۔ محط فائدہ قید زائد ہے عند اللہ کا تعلق احیاءسے ہویا یرزقون سے دونوں عند اللہ ہوں گی فی الدنیا نہیں ہوں گی اس لیے شہداء کی زندگی تو بنص قرآن عند اللہ ہے اور انبیاء کی برزخی زندگی جسمانی دنیوی ہے وبینھمابون اس لیے انبیاء کی زندگی کے لیے ان آیات سے استدلال نہیں ہوسکتا ۔ اب آپ حضرات اگر اس گزارش سے متفق ہوں تو شہداء کی زندگی کے متعلق تو کوئی اختلاف نہیں رہے گا اور حیات دنیوی پر ان سے استدلال درست نہیں ہوگا جب زندگیاں ہی دونوں الگ ہیں تو نہ ایک کا قیاس دوسری پر ہوسکے گا نہ ایک کے دلائل دوسری کے لیے دلیل بن سکیں گے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ علیہ نے معتاد رزق سے اگر دنیوی معتاد سمجھا ہے تو یہ صحیح معلوم نہیں ہوتا
Flag Counter