Maktaba Wahhabi

47 - 56
کی تشریح حضرت نانوتوی کے ارشاد سے چنداں متعلق بھی نہیں اپنی جگہ کچھ خیالات ہیں جن کی پیدائش کا ذمہ دار مولانا کا ذہن ہے۔ جوتلامذہ اور معتقدین کی محفل میں کہنے کے لیے ایک اچھی چیز ہے دلائل وبراہین کے معیار پر اتر نامشکل ہے ایک مستقل سی تقریر ہے اسی سے نہ حدیث کے حل میں مدد ملتی ہے ۔ نہ مولانا نانوتوی رحمہ اللہ کے ارشادات پر تشریحی روشنی اس سے پڑتی ہے البتہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مولانا نانوتوی رحمہ اللہ کے ارشادات کو ابن قیم کے ارشاد اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کےبعض کشوف میں ضم کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ میں نے اسے ناتمام کہنے کی جسارت کی ہے کہ حضرت نانوتوی رحمہ اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پر فتوح کو کل ارواح باقیہ اور خصوصًا مومنین کی اصل تصور فرماتے ہیں لیکن حضرت قاری صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو "حقیقی مومن" فرما کر اس کے عموم کو ختم فرماتے ہیں اور اہل ایمان کی تخصیص کی ترجمانی اس انداز سے فرماتے ہیں گویاروح اور ایمان بالکل مرادف ہیں ۔ اصطلاح کا حق ہر ایک کو ہے ہم اسے روک نہیں سکتے لیکن ارباب علم غور فرمائیں کہ اس سے کس قدر خبط ہوگا اور پرویز اور عبد الحکیم کو اصطلاحات کی تخریب سےروکنا کتنا مشکل ہوگا بہتر ہے لوگوں سے گفتگو ان کی زبان میں کیجائے جس طرح ابن القیم رحمہ اللہ نے کی ہے اس کے بعد مولانا نے سورج اور اس کی دھوپ کوتمثیلی انداز میں بہت طول دیا ہے لیکن یہ کوشش بھی اس لیے ناتمام ہے۔ رَدّاللہُ علیّ رُوحیِ، میں لفط"رد" کا تقاضا اس سے پورا نہیں ہوتا البتہ اس طول سے ذہن میں خبط ضرور ہوجاتا ہے۔ اگر یہ تقریر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے وجود کے متعلق کی جاتی اور متصوفانہ اور فقہی جمود پر اس سے پابندی لگائی جاتی توبہت مناسب ہوتا حدیث کے فہم کے لیے تو اس تقریر کے ہوتے ہوئے تو یہ لفظ حدیث سے نکالنا ہی پڑے گا۔ اس حدیث سے مخلصی کی ایک اور راہ بھی ہوسکتی تھی کہ اس کے رواۃ میں ابوصخر حمید بن زیاد ہیں مسلم نے اس کی متابعت کے طور پر روایت کی ہے یحیی بن معین نے اسے بعض اوقات ضعیف کہا ہے اس سے بعض منکرات بھی مروی ہیں حدیث پر جرح کرکے مخلص ہوسکتی ہے حدیث کو صحیح تسلیم کرنے کے بعد اصطلاحات کی ہیر ا پھیری بے دین اور اہل بدعت کے لیے راستہ کھول دے گی اور اس کی ذمہ داری اہل علم پر ہوگی۔ یا پھر وہی عام اہل سنت کی راہ حیات برزخی ہے اور یہ دنیوی موت کے ساتھ جمع ہو سکتی
Flag Counter