Maktaba Wahhabi

40 - 76
یہ لکھاہے کہ: ﴿ آیئے ہم بخاری ومسلم کی دو حدیثیں پیش کرتے ہیں جن میں ام المؤمنین فرماتی ہیں کہ میں لڑکی تھی اورکھیل کود کرتی تھی اس وقت مکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ القمر کی یہ آیت اتری (اسکے اگلے صفحہ پر مؤلف نے لکھاہے )یہ آیت ’’بل الساعۃ‘‘ سورۃ القمر کی آیت ہے جس میں چاندکے پھٹنے کے واقعہ کاذکر ہے جس سے اسکا زمانہ نزول متعین ہوجاتاہے کیونکہ محدثین اورمفسرین کااس بات پر اتفاق ہے کہ یہ واقعہ ۵ نبوی میں منیٰ کے مقام پر حج کے موقعہ پر پیش آیاتھااورام المؤمنین اس وقت لڑکی تھیں اور کھیل کود کیاکرتی تھیں ﴾ یہاں فاضل مؤلف نے شق القمر کے واقعہ کے ذریعہ صحیح بخاری کی نو سال والی روایت کوردکرنے کی جو کوشش کی ہے وہ بھی ناکام ہوگئی ہے کیونکہ انکی دلیل کی صحت کی بنیاد اس بات پر ہے کہ چاند کے دوٹکڑے ہونے کاواقعہ نبوت کے پانچویں سال واقع ہونے پرمنحصر ہے اوربقول مؤلف رسالہ محدثین اورمفسرین کا اس پر اتفاق ہے مگرا س اتفاق کافاضل مؤلف کوئی بھی حوالہ نقل کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں جس کے باعث ان کایہ قول باطل ہے معلوم ہوناچاہیے کہ واقعہ شق القمرکا صحیح زمانہ کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں اسلئے اس قسم کی دلیل جو خود باطل ہے وہ صحیح بخاری یامسلم کی کسی حدیث کوکیسے رد کرسکتی ہے پس بلا دلیل شق القمر کے واقعہ کاسال سن پانچ(۵) نبوی مقرر کرنابھی مؤلف کی ایک بددیانتی ہے۔ مؤلف رسالہ نے زیر عنوان ’’صدیقہ کائنات کاعقد‘‘ کے تحت اس حدیث کا تھوڑاسا حصہ نقل کیاہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کاسبب ذکرکیاگیاہے یعنی بی بی خدیجہ رضی الله عنہا کی وفات اورخولہ بنت حکیم کااس رشتہ میں ایک اہم کردار اداکرنایہ حدیث ہم گذشتہ صفحات میں نقل کرچکے ہیں اوراس حدیث میں صاف طورپر موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقد کے وقت بی بی کی عمر چھ سال تھی اور جب رخصتی ہوئی تو بی بی عائشہ کی عمر نوسال تھی مگر فاضل مؤلف کی جانب سے بددیانتی کی انتہا ملاحظہ فرمایئے کہ انھوں نے اس حدیث میں سے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کاتعین کرنے والے الفاظ ہی حذف کردیئے یہ ہے ناموس رسالت کاتحفظ اوردین کی خدمت جو یہ صاحب کررہے ہیں۔
Flag Counter