Maktaba Wahhabi

47 - 76
کوشش کامیاب نہیں ہوسکی۔ حدیث چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہوکرہم تک راویوں کے واسطے سے پہنچتی ہے اس لئے حدیث کی صحت اورعدم صحت کی پہچان کیلئے سب سے پہلانشانہ اورہدف یہی راوی ہوتے ہیں اسلئے علمائے حدیث نے راویوں کے بارے میں اہتمام کیااورانکی روایات قبول کرنے کے لئے ایسی دقیق اورپختہ شرائط مقرر کیں جو ان کی سوچ اوردور اندیشی کے درست ہونے کی دلیل ہیں اوران کے طریقہ اوراسلوب کی عمدگی پردال ہیں وہ شرطیں جوانھوں نے راوی پرلگائی ہیں یاوہ شرطیں جوانھوں نے حدیث اوراخبار کے قبول کرنے کے لئے مقرر کی ہیں ان تک کوئی امت بھی نہ پہنچ پائی حتیٰ کہ اس زمانے کے لوگ بھی جسے باریک بینی اورذرائع ابلاغ کے عروج کازمانہ کہتے ہیں،انھوں نے بھی اخبار وواقعات کے ناقلین میں ان شروط کا التزام نہیں کیاجوعلمائے اصول حدیث نے راوی میں شروط مقرر کی ہیں بلکہ اس سے کم بھی نہیں پس ایسی بہت سی خبریں جنہیں سرکاری خبر رساں ایجنسیاں نقل کرتی ہیں اوران کی اشاعت کرتی ہیں ان کی توثیق نہیں کی جاتی اورنہ ہی انکی سچائی جانچنے کی طرف کوئی خاص میلان ہوتاہے اورایسا اس لئے ہوتاہے کیونکہ ان کے راوی مجہول ہوتے ہیں جس کے باعث اکثر طورپرتھوڑے ہی عرصہ میں ان خبروں کی عدم صحت اورضعف کااظہار ہوجاتاہے جبکہ محدثین نے مقبول حدیث کیلئے جوشرائط عائد کی ہیں ان میں اولاًسند کامتصل ہونایعنی ایک حدیث کے جتنے بھی راوی ہیں ان سب کاایک دوسرے سے تسلسل کے ساتھ روایت کرنا،ثانیاًراویوں کا عادل ہونایعنی کسی بھی راوی کاجھوٹ فریب اورتمام اخلاقی برائیوں سے پاک ہونا،ثالثاًراویوں کاضابط ہونایعنی ہرراوی کاوہم و نسیان سے پاک قوی الحافظہ ہونا،رابعاً حدیث کاعلت سے پاک ہونایعنی حدیث قرآن یاشان رسالت کے خلاف اس طرح واقع ہوتی ہوکہ اسکی کوئی تاویل ممکن نہ ہویاحدیث کے متن میں کوئی ایسی بات پائی جائے جوکسی دوسری حدیث کے ذریعہ متروک یا منسوخ ثابت ہو،خامساًحدیث کامضمون شاذنہ ہویہی وجہ ہے کہ کئی صدیاں بیت جانے کے بعد بھی آج تک کسی شخص نے بھی محدثین کی رقم کردہ ان صحیح احادیث کوسندکے اعتبار سے ناقابل قبول قراردینے کی کوشش نہیں کی لیکن اس دورمیں منکرین حدیث نے صحیح احادیث میں بھی اصحٰ یعنی صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی احادیث کواپنی تنقیدکانشانہ بنایاہے
Flag Counter