Maktaba Wahhabi

19 - 61
لغت کے اعتبار سے عربی زبان کے اس لفظ ’’جہیز‘‘ کے معنیٰ ہیں ضرورت کے لحاظ سے مختصر سامان مہیا کرنا یا تیار کرنا۔مُردوں کو دفنانے کو تجہیز وتکفین کہتے ہیں۔ اس میں تجہیز لفظ جہیز سے ہی مشتق ہے۔ مُردہ چونکہ بے بس ولا چار ہے کفن دفن کا محتاج ہے۔ چنانچہ مردے کو دیئے جانے والی چند اشیاء کو جو کفن خوشبو، کافور وغیرہ پر مشتمل ہوں تجہیز کہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ جہیز دراصل مُردوں کو دی جانے والی چیزوں کا نام ہے نہ کہ زندوں کو (ویسے جہیز خور ضمیرکے لحاظ سے مُردہ ہی توہوتا ہے۔) افسوس کی بات ہے اب اردو زبان میں جہیز اس سامان کو کہتے ہیں جو لڑکی والے اپنی بیٹی کی شادی میں دیتے ہیں۔ اس طرح وہ مثل صادق آئی :’’ایک زبان کی بولی دوسری زبان کی گالی۔‘‘ لڑکی کے گھر ڈالے جانے والے اس ڈاکہ کو جہیز کا نام دینا سراسر جہالت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی شادیاں خود کیں اور اپنی بیٹیوں کی کیں ان سے کہیں یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شادی میں کوئی چیز جہیز کے نام سے لی ہویادی ہو۔ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شادی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جہیز کے نام سے کوئی چیز نہیں دی گئی۔ حالانکہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ بڑے آسودہ حال تھے۔ اگر ایسی بات سنت ہوتی تو وہ ضرور اپنی بیٹی کو کچھ دیتے۔خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چار صاحبزادیوں: حضرت زینب،حضرت رقیہ ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہن کی شادیوں میں جہیز نام پر کوئی چیز نہیں دی۔ کتبِ سیرت کے مطالعہ سے کہیں اس کا پتہ نہیں چلتا ۔ مگر غیر کا مال ہضم کرنے کے لئے حیلے تلاش کرنے والے فوراً کہتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز دیا تھا۔ یہ لوگ اپنی عقل کو حلال کھانے کی طرف مائل کریں تو حقیقت واضح ہوجائیگی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خود بہت غریب تھے جن کے پاس روٹی مکان کچھ بھی نہیں تھا اوروہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت میں تھے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا دونوں کے کفیل تھے لہٰذا تھوڑاسا سامانِ ضرورت جیسے ایک چادر، ایک تکیہ، ایک پانی کا مشکیزہ اپنی بیٹی
Flag Counter