Maktaba Wahhabi

221 - 534
شرط شریعت نے متعین کی ہے وہ یہ کہ’’لا تبع ماليس عندک’’[1] ایسی چیز مت بیچو جو تمہارے پاس نہیں ۔ استصناع کے مسئلہ کو اگر بیع کی نوعیت سے دیکھا جائے تو مطلب یہ ہوا کہ آرڈر پر مال تیار کرانا جائز نہ ہوا کیونکہ چیز تیار کرنے والا ایسی چیز فروخت کر رہا ہے اور ایسی چیز پر معاہدہ کر رہا ہے جو ابھی کسی کی بھی ملکیت میں نہیں بلکہ سرے سے معدوم ہے ۔ لیکن شریعتِ مطہرہ چونکہ لوگوں کی آسانی کیلئے نازل ہوئی ہے۔ چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے {يُرِيدُ اللّٰه بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ} [البقرة: 185] اللہ تعالٰی کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں ۔ {وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ} [الحج: 78] ( اللہ تعالیٰ نے ) تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی۔ لوگوں کی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس قسم کے معاہدات کو عمومی احکام سے چند صورتوں میں الگ کرکے استثنائی طور پر ان کی اجازت مرحمت فرمادی گئی تاکہ لوگ تنگی اور تکلیف میں مبتلا نہ ہوں ۔ وہ ضروریات جن کے پیشِ نظر عقد استصناع کی اجازت دی گئی *بیچنے اور بنانے والے کا فائدہ :کہ اس کو بنانے کی قیمت وصو ل ہوتی ہے ۔ اور چیز بننے سے پہلے ہی اس کا گاہک موجود ہوتا ہے ،اور مینوفیکچرر اگر بیع وشراء کرے گا توممکن ہے وہ چیز اس سے بکے گی یا نہیں یا جلدی بک جائے یا دیر سے ۔ پھر اس کی مارکیٹنگ کی ضرورت پڑے گی ۔لہذا یہاں شریعت نے صانع کا فائدہ بھی ملحوظ رکھا ہے ۔ * خریدار کا فائدہ : خریدار اپنی مرضی اور منشا کے مطابق چیز تیار کروا سکتا ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ جو چیز مارکیٹ میں موجود ہے وہ اس کی ضرورت ٹھیک طرح سے پوری نہ کرتی ہو ، لہذا اس معاہدہ کے ذریعہ وہ اپنی مرضی کی چیز تیار کروا سکتا ہے ۔ * : دیگر اقتصادی فوائد : شیخ مصطفیٰ زرقا نے ان اقتصادی فوائد کی جانب اشارہ فرمایا ہے ، فرماتے ہیں کہ : بہت سے ایسے سامان اور چیزیں ہوتی ہیں جن کا اس وقت تک بنانا ناممکن ہوتا ہے جب تک ان کا کوئی
Flag Counter