Maktaba Wahhabi

166 - 413
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ کیا میں تمہیں بڑے گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں ؟‘‘ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بات تین مرتبہ فرمائی) انہوں نے عرض کیا :’’ کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ کا کسی کو شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی۔‘‘ [ اس وقت ] آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے [ اب آپ ] سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا:’’ خبردار اور جھوٹی بات۔‘‘ انہوں نے بیان کیا :’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس [ جملے] کو اتنی بار دہراتے رہے کہ ہم نے کہا :’’ کاش کہ آپ خاموش ہو جاتے۔‘‘ اس حدیث شریف میں ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ [ خبردار اور جھوٹی بات]اس قدر کثرت سے دہرایا کہ حضرات صحابہ کہنے لگے :’’ کاش کہ آپ خاموش ہو جاتے۔‘‘ حدیث شریف میں دیگر فوائد: ٭ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی گفتگو کا آغاز سوالیہ جملے [ کیا میں تمہیں بڑے گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ کے متعلق نہ بتاؤں ؟] سے کیا اور اسی جملہ کہ تین مرتبہ دہرایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اسلوب سامعین کو مکمل طور پر متوجہ کرنے اور بات کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی غرض سے اختیار فرمایا۔[1] ٭ [خبردار اور جھوٹی بات ] بولتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹیک کو چھوڑا اور سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ سامعین کو متوجہ کرنے میں اس طرز عمل کی اہمیت بھی واضح ہے۔
Flag Counter