Maktaba Wahhabi

413 - 924
کاروانِ سلف تحریر: جناب علیم ناصری رحمہ اللہ(سابق مدیر: ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور) بیسویں صدی کے آخری ایام میں بیس اہلِ حدیث علما کا تذکرہ ’’کاروانِ سلف‘‘ کے عنوان سے مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کا اثرِ خامہ ہے۔ مکتبہ رشیدیہ لاہور نے بیسویں صدی کے آخری ربع میں ایک تذکرہ علمائے دیوبند بعنوان ’’بیس بڑے مسلمان‘‘ کے نام سے شائع کیا تھا۔ راقم الحروف کا خیال تھا کہ ہمارے بھٹی صاحب ؒبھی سوانح نگاری کے میدان میں اترے ہوئے ہیں ، شاید وہ ’’بیس بڑے وہابی‘‘ کے عنوان سے کتاب لائیں گے، مگر ایسا نہ ہوسکا، کیوں کہ اکثر ’’بڑے وہابی‘‘ وہ ’’نقوشِ عظمتِ رفتہ‘‘ اور بزمِ ارجمنداں ‘‘ میں ’’خرچ‘‘ کر چکے تھے، لہٰذا اب ’’کاروانِ سلف‘‘ ہی مناسب تھا۔ سو آگیا۔ کتاب میں (بقول مولف)’’علمائے اہلِ حدیث کا ایک چھوٹا سا کہکشاں سجانے کی کوشش کی ہے۔ اس کہکشاں کے پر تارے نے اندھیروں میں اُجالا کیا اور ظلمات کو روشنی بخشی ہے۔‘‘ اس میں کوئی شبہہ نہیں ۔ ہمارے اسلاف کو علم کے ساتھ عمل کا جو جذبہ حاصل تھا، اس کی نظیر اب شاذ ہوگئی ہے۔ ہمارے بھائی کے قلم کو اللہ تعالیٰ نے جو قوتِ رعنائی عطا فرمائی ہے، اس کا نتیجہ ہے کہ ہم اپنے بھولے بسرے بزرگوں سے آشنا ہوتے ہیں اور اُن کے اعمال و کردار کا مطالعہ کرکے ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی؟ انھوں نے اپنے ’’حرفے چند‘‘ میں حرفِ آخر کے طور پر تعلی نما شعر اقبال لکھا ہے: ؎ از تب و تابم نصیبِ خود بگیر بعد ازیں ناید چو من مردِ فقیر اس کی تائید میں ، میں بھی کہتا ہوں اور اقبال ہی کی زبان سے کہتا ہوں : لکھی جائیں گی کتابِ دل کی تفسیریں بہت ہوں گی اے خواب جوانی تیری تعبیریں بہت ہو بہو کھینچے گا لیکن درد کی تصویر کون اٹھ گیا ناوک فگن مارے گا دل پر تیر کون انھوں نے جس شخصیت پر قلم اٹھایا ہے، اس کی سیرت کے بیان کا حق ادا کر دیا ہے۔ میرے جیسے لوگ اپنے بزرگوں کے متعلق خاصی معلومات کا گمان رکھتے تھے، مگر بھٹی صاحب کے رشحاتِ قلم نے کہیں دریا بہا دیے اور کہیں آبشاروں کا تانتا باندھ دیا ہے۔
Flag Counter