Maktaba Wahhabi

34 - 49
جواب کی طرف:۔ تو میں یہ کہوں گا کہ شاید موصوف عربی لغت سے ناواقف ہونے کی بنا پر اتباع اور تقلید میں تمیز نہ کر سکے یا تو متجاہل بن رہے ہیں یا عوام الناس کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں ۔ بیشک قرآن کریم میں تقلید کے لئے لفظ اتباع ہی استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ اتباع اور تقلید ایک ہی چیز ہے۔ اب آئیے دیکھئے قرآن کریم میں (سمک) یعنی مچھلی کے لئے لفظ (لحم) یعنی گوشت استعمال کیا گیا ہے۔اور اسی طرح کہیں مدینہ ( یعنی شہر) کے لئے لفظ(قریۃ) یعنی گاؤں استعمال کیا گیا ہے۔ کیا اب اس سے مچھلی گوشت بن جاتی ہے اور شہر گاؤں بن جاتا ہے۔ہر گز نہیں! توپھر آئیے میں آپ کو عربی زبان کے کچھ ایسے الفاظ پر مطلع کروں جو کہ کئی معنوں کے لئے استعمال ہوئے ہیں۔کبھی تو ایک ہی لفظ اپنی ضد کے لئے بھی استعمال ہوا ہے دیکھ لیجئے لفظ ’’قرء‘‘ عربی زبان میں حیض کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور طہر کے لئے بھی۔کیا اب آپ یہ کہیں گے کہ حیض اور طہر ایک ہی چیز ہے اور ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔اسی طرح لفظ ’’مولی‘‘ عربی زبان میں مالک کے معنی میں بھی آتا ہے اور غلام کے معنی کے لئے بھی آتا ہے ۔ اسی طرح لفظ’’جاریۃ‘‘ عربی زبان میں کشتی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور لونڈی کیلئے بھی۔ اور اسی طرح لفظ ’’ عین‘‘ کے معنی آنکھ بھی ہے اور چشمے کو بھی کہتے ہیں اور سونے کو بھی کہتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ چند الفاظ مثال کے طور پر مفتی ولی صاحب کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں۔ کیا اب بھی مفتی ولی صاحب یہی کہیں گے کہ مالک اور غلام ایک ہی چیز ہے۔کشتی اور لونڈی ایک ہی چیز ہے ‘آنکھ اور چشمہ اور سونا ایک ہی چیز ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ محل بدل جانے سے اس لفظ کا ترجمہ اور معنی بھی بدل جاتا ہے جس طرح غلام کے لئے لفظ ’’مولی‘‘ استعمال کرنے سے غلام مالک نہیں بن جاتا ہے اور مالک غلام نہیں بن جاتا اسی طرح تقلید کے لئے لفظ ’’اتباع‘‘ استعمال کرنے سے تقلید اطاعت رسول نہیں بن جاتی بلکہ تقلید ہی رہتی ہے۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اتباع اور تقلید دونوں کی ظاہری شکل ایک ہے لیکن حقیقت میں آسمان و زمین کا فرق ہے ۔ جیسے کہ پانی اور پیشاب دونوں کی ظاہری شکل تو ایک ہی ہے لیکن حقیقت میں ایک پاک دوسرا ناپاک ہے۔
Flag Counter