Maktaba Wahhabi

114 - 224
یہ سن کر خاموش ہو گئے۔ ‘‘[1] امام شافعی اور امام محمد بن حسن: امام شافعی کہتے ہیں : ’’ ایک روز میر ااور محمدبن حسن کا علمی مذاکرہ ہوا۔ بات بڑھتے بڑھتے اختلاف بھی پیدا ہو گیا۔ میں نے انہیں دیکھا کہ گویا ان کی رگیں بہہ پڑیں گی اور غصے میں بٹن ٹوٹ جائیں گے۔‘‘ [2] امام محمد کہتے ہیں : ’’اگر کسی کا اختلاف ہم پر حاوی اور صحیح ثابت ہوتا تو وہ شافعی ہیں ۔ ان سے پوچھا گیا کہ ایسا کیوں ؟ تو انہوں نے کہا: ان کے حسن بیان کی وجہ سے اور اس لیے بھی کہ وہ غور سے سن کر پوری ثابت قدمی کے ساتھ سوال و جواب کرتے تھے۔‘‘ [3] علماء اُمت کے آداب اختلاف کے ان نمونوں سے یہ نتائج نکلتے ہیں کہ قرونِ خیر میں اخلاف بھی اَسلاف کے نقش قدم پر چلتے تھے اور ادب نبوی سے سیراب و سرشار رہا کرتے تھے۔ سلفِ صالحین کا صرف یہی ادب نہیں تھا کہ وہ طنز و تعریض سے اجتناب کرتے تھے بلکہ اس عہد کے علماء کا یہ عام طریقہ تھا کہ استقلال کے ساتھ تحصیل کرتے رہتے اور جن چیزوں کا علم نہیں رہتا اس میں زیادہ غورو خوض سے بچتے رہتے۔ فتویٰ دینے سے بھی گریز کرتے تاکہ کوئی غلط مسئلہ ان کی زبان سے نہ نکل جائے۔ مؤلف القوت کہتے ہیں : ’’ ہمیں عبدالرحًن بن ابی لیلیٰ کی روایت پہنچی۔ انہوں نے کہا کہ اس مسجد (مسجد نبویؐ) میں ایک سو بیس ( ۱۲۰) صحابہ کو میں نے پایا کہ ان سے کسی حدیث یا فتویٰ کے بارے میں پوچھا جاتا تو اس کی خواہش و کوشش ہوتی کہ کوئی دوسرا بھائی ہی
Flag Counter