Maktaba Wahhabi

115 - 224
اسے بتا دے اور بالفاظِ دیگر … کسی سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو وہ دوسرے کے پاس بھیجتا اور وہ کسی دوسرے کے پاس …اس طرح سائل گھومتے ہوئے پھر اس شخص کے یہاں پہنچتا جس سے پہلی مرتبہ اس نے سوال کیا تھا۔ ‘‘[1] اس سلسلے میں انہیں احساسِ کمتری نہ تھا اور نہ ہی وہ دوسروں کے پاس بھیجنے میں کوئی سبکی محسوس کرتے۔ کوئی مسئلہ سامنے آتا تو توقف کرتے کہ کہیں کوئی غلطی نہ ہو جائے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ ہے کہ ایک شخص نے سیّدنا مالک بن انس سے ایک مسئلہ پوچھا اور کہا کہ ان کی قوم نے آپ سے یہ مسئلہ پوچھنے کے لیے ایسی جگہ سے بھیجا ہے جس کی مسافت یہاں سے چھ ماہ کی ہے۔ آپ نے کہا: جس نے بھیجا ہے اس سے جا کر کہہ دینا کہ میں نہیں جانتا۔ اس شخص نے کہا: پھر اسے کون جانے گا؟ آپ نے فرمایا: اسے وہ جانے گا جسے اللہ نے اس کا علم دیا ہے۔ ملائکہ کہتے ہیں : ﴿لَا عِلْمَ لَنَآ اِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا﴾ (البقرہ: ۳۲) ’’ہم اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں سکھایا۔‘‘ امام مالک ہی سے یہ روایت بھی ہے کہ ان سے اڑتالیس (۴۸) مسئلے پوچھے گئے جنمیں سے بتیس ( ۳۲) کے جواب میں آپ نے لا ادری (میں نہیں جانتا) کہا۔ خالد بن خداش سے روایت ہے ، انہوں نے کہا: میں چالیس مسائل پوچھنے کے لیے عراق سے امام مالک کے پاس آیا اور ان سے پوچھا تو صرف پانچ کے جواب آپ نے دیے۔ ابن عجلان کہتے تھے! جب عالم لا ادری نہ کہنے کی غلطی کرے تو وہ ہلاکت کی جگہ پہنچ جاتاہے۔ امام مالک سے روایت ہے۔ ان سے عبداللہ بن یزید بن ہرمز نے روایت کی کہ عالم کو چاہیے کہ اپنے ہم نشینوں کو لا ادری سکھائے تاکہ ان کے ہاتھ میں ایسی اصل اور ٹھکانہ ہو جہاں وہ پناہ لیں اور انمیں سے جب کسی سے کوئی بات پوچھی جائے جسے وہ نہیں جانتا تو لا ادری
Flag Counter