Maktaba Wahhabi

131 - 224
تقلید اور اس کے نتائج: اجتہاد کے ساتھ جو حالات پیش آئے وہ گذشتہ صفحات میں ہم نے ذکر کر دیے جنہیں دیکھ کر صالحین اُمت کو خطرہ ہوا کہ اجتہاد کا دروازہ ایسے لوگوں کے لیے نہ کھل جائے جو اس کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ کیونکہ اب کارِ افتاء ایسے لوگ انجام دینے لگے جو سلاطین و امراء کے زیر سایہ پروان چڑھے اور نفسانی ہواؤں کے طوفان میں نصوص کی گردنیں مروڑنے لگے ہیں ۔ کوئی سختی اور شدت کو روا رکھتا ہے اور کوئی رخصت و اجازت کی راہیں نکالتا ہے۔ اس طرح صلحاء اُمت نے جب اسلام اور مسلمانوں کے لیے خطرات محسوس کیے تو انہیں اس کا علاج یہی سمجھ میں آیا کہ راہِ نجات اور اُمت کی بھلائی اسی میں ہے کہ تقلید لازم کر دی جائے جو ایک مناسب علاج ہے اور المیہ بھی کہ اخلاص و دیانت کے فقدان نے تقلید تک پہنچا دیا۔ ایسے فقہاء کے باہمی تعارض و تناقض اور مباحثوں کے استمرار و تسلسل کی وجہ سے جدل سے نکلنے کا واحد راستہ یہی نکلا کہ اختلافی مسائل میں متقدمین کے اقوال و آراء کی طرف رجوع کیا جائے … سلاطین کے تقرب، دنیا طلبی اور مسائل میں بے اعتدالی کے سبب بہت سے قاضیوں پر لوگوں کا اعتماد بھی باقی نہ رہا اور ان کے قضاء و افتاء پر اسی وقت بھروسہ ہوتا جب ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کے قول سے مطابقت ہوتی۔ اس طرح جمہور مسلمین نے ائمہ اربعہ کی تقلید کا اعتبار کر لیا اوران کے اقوال کو اپنا لیا۔ ان ائمہ کے اُصول کے مطابق کسی غیر مصرّح مسئلہ کی تخریج اجتہاد فاسد سے تحفظ کی بہترین ضمانت ہوتی۔ کیونکہ تکمیل اغراض کے لیے ایسے حاملین علوم شریعت غلط اجتہاد کرنے لگے تھے جو زہد و تقویٰ سے خالی تھے۔ امام الحرمین (م ۴۷۸ ھ ) کا دعویٰ ہے کہ جلیل القدر صحابہ کرام کی تقلید سے ممانعت پر محققین کا اجماع ہو چکا ہے اور اب ان مسالکِ ائمہ کی اتباع ضروری ہے جنہوں نے تحقیق و تفتیش کی فکر و نظر سے کام لیا۔ ابواب قائم کیے۔ مسائل کی نوعتیں ذکر کیں اور اگلوں کے مسالک کا بھر پور جائزہ لیا۔ اس کے بعد امام الحرمین نے تقلید کی تاکید کرتے ہوئے یہ حکم لگایا
Flag Counter