Maktaba Wahhabi

130 - 224
شدت و سختی محسوس کرنے لگے۔ جیسا کہ شاہ اندلس کا ایک واقعہ ہے کہ اس نے یحییٰ بن یحییٰ مفتی مالکیہ[1] سے روزے کا کفارہ پوچھا کیونکہ وہ روزے کے دنوں میں مصروفِ جنگ تھا تو آپ نے جواب دیا کہ اس پر لگاتار دو مہینوں کا روزہ ہے اور اس کا کوئی بدل بھی نہیں ۔ حالانکہ انہیں غلام آزاد کرنے کا فتویٰ پہلے دینا چاہیے تھا۔ جب اس کے بارے میں آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا: وہ سیکڑوں غلام آزاد کر سکتا ہے اس لیے اس کے لیے سخت حکم ضروری ہے اور وہ روزہ ہی ہے۔ اسلام جو حقائق زندگی پر نظر رکھتا ہے اس کی عطا کردہ جتنی سہولیات ہیں اور بلا جبر و اکراہ فطری طور پر اس کے احکام پر عمل اور ساتھ ہی انسان کی بالکل آزادانہ زندگی کو پابند ضوابط و حدود بنانے کی خواہش تاکہ وہ نفسانیت کی راہ پر نہ لگ جائے۔ اس کا اسلام میں جو اعیہ ہے اسے ہم نگاہِ انصاف سے دیکھیں تو تشدد اور تخفیف کی ان دونوں صورتوں میں افراط و تفریط ہے اور شارع حکیم کی منشا کے خلاف ہے۔ عالمِ دین کا سب سے اہم فریضہ یہی ہے کہ خدا کا پیغام بندوں تک اسی طرح پہنچاتا رہے جیسے اس نے اپنے رسول کے ذریعہ اور اپنی کتاب میں نازل فرمادیا ہے۔ بے جا تشدد و تخفیف کا اسے کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے: ﴿قُلْ اَتُعَلِّمُوْنَ اللّٰہَ بِدِیْنِکُمْ﴾ (الحجرات: ۱۶) ’’ تم فرماؤ ! کیا تم لوگ اللہ کو اپنا دین بتاتے ہو۔ ‘‘ ﴿قُلْ ئَ اَنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّٰہُ ﴾ (البقرہ: ۱۴۰) ’’ تم فرماؤ ! تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ کو زیادہ علم ہے۔‘‘ تشدید یا تخفیف کتاب وسنت کی اتباع سے اگر تجاوز کر جائے تو ایک باطل اور نئی چیز ہو گی۔
Flag Counter