Maktaba Wahhabi

152 - 224
نقوشِ راہ آج جب کہ ہمارے سبھی مسائل و معاملات اختلاف و انتشار کا شکار ہیں ، ایسے نازک دور میں ہمیں سکونِ قلب کے لیے اسی شجر سایہ دار کا سہارا لینا چاہیے اور انہیں مبارک آداب و اخلاق سے اپنے آپ کو مزدین کرنا چاہیے جنہیں اسلاف کرام ہمارے لیے چھوڑ گئے۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے سنجیدہ کوشش کا صرف یہی ایک ذریعہ ہے۔ صالحین اُمت کو خطرہ ہوا کہ یہ اجتہاد کا دروازہ ایسے لوگوں کے لیے نہ کھل جائے جو اس کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ کیونکہ افتاء کا کام ایسے لوگ انجام دینے لگے تھے جو سلاطین و امراء کے زیر سایہ پروان چڑھے اور نفسانی ہواؤں کے طوفان میں نصوص کی گردنیں مروڑنے لگے تھے۔ کوئی سختی اور شدت روا رکھتا اور رخصت و اجازت کی راہیں نکالتا۔ اس لیے صلحاء اُمت نْے جب اسلام اور مسلمانوں کے لیے خطرات محسوس کیے تو انہیں اس کا یہی علاج سمجھ میں آیا کہ راہِ نجات اور اُمت کی بھلائی کے لیے تقلید لازم کر دی جائے جو ایک مناسب علاج ہے اور المیہ بھی کہ اخلاص و دیانت کے فقدان نے رویتی تقلید تک پہنچا دیا۔ائمہ مجتہدین کے سامنے ایسے اسباب تھے جن سے ان کے باہمی اختلاف کا جواز موجود تھااور یہ اختلاف بھی اپنے اُصول و ضوابط کے دائرے میں ہوا کرتا۔ لیکن معاصرین کے اختلاف میں کوئی ایسی معقول وجہ نہیں جو ان کے یہاں پائی جاتی تھی کیونکہ یہ مجتہد نہیں بلکہ سب کے سب مقلد ہیں ۔ وہ حضرات بھی انہیں میں شامل ہیں جو ترکِ تقلید کا بلند بانگ دعویٰ کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم مقلد نہیں ۔یہ دیکھ کر دل تڑپ اُٹھتا ہے کہ بعض مسلمان ہی اسلامی بیداری کے بال و پر نوچ رہے ہیں اور اسے بے ضابطہ اختلاف کی بیڑیاں پہنا رہے ہیں ۔ کچھ مسائل سبب اختلاف بن سکتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو خود ہی ایک مدت سے مسلمانوں کو اُلجھائے ہوئے ہیں اور ان کی طاقت و قوت کو بہت زیادہ تباہ و برباد کر چکے ہیں ۔ان چیزوں کو مسلمانوں کے سامنے ایسا خلط ملط کر دیا گیا ہے کہ آسان اور سخت ، معمولی اور اہم اور چھوٹے بڑے کی تمیز نہیں رہ گئی۔
Flag Counter