Maktaba Wahhabi

220 - 224
حدثنا الثقۃ من أصحابنا وأخبرنا الثقۃ ’’یعنی ہمارے ثقہ دوست نے یہ حدیث بیان کی ہے یا ہمیں یہ خبر دی ہے۔‘‘ الغرض یہ ہمعصروں کے چند نمونے ہیں ۔ صحابہ ہمعصر تھے اور ساتھی تھے۔ ائمہ بھی باہم ساتھی تھے۔ اہل علم کی کتابیں ان جیسے نمونوں سے بھری پڑی ہیں لیکن یہاں بسط و تفصیل کا موقع نہیں ، البتہ اس کے کچھ اہم نقوش کی طرف اشارہ کر رہا ہوں ۔ ائمہ مسلمین کے سلیقۂ اختلاف کے چند نقوش: ائمہ نے بہت سے اجتہادی امور میں اختلاف کیا ہے، اور ان سے پہلے صحابہ تابعین بھی بہت سے اجتہادی امور میں اختلاف کرچکے ہیں ۔ لیکن وہ سب کے سب ہدایت پر ہیں جب تک ان کا اختلاف تفریق و انتشار اور شہوت و نفسانیت پر نہ ہو، وہ لوگ رضائے الٰہی اور حق یابی کے لیے پوری کوشش کرتے تھے۔ اسی سبب سے ہر زمانے کے علماء اجتہادی مسائل میں مفتیوں کے فتوے قبول کرلیتے تھے اور مصیب کو درست قرار دیتے تھے اور چوک کرنے والے کے لیے دعائے مغفرت کیا کرتے تھے اور سب سے حسن ظن رکھتے تھے۔ یہ لوگ قاضیوں کے فیصلے کو کسی بھی مذہب پر تسلیم کرلیتے تھے اور قاضی اپنی صواب دید سے بغیر کسی پریشانی اور تعصب کے برخلاف بھی فیصلہ دیا کرتے تھے۔ خصوصاً ان مسائل میں جو زیادہ مشکل ہوا کرتے تھے۔ میں اس سلسلے میں ایک اہم بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا جس کا جاننا طلبہ کے لیے زیادہ مناسب ہے اور وہ ہے فقہی مذہب کی تالیفات اور کتب فتاویٰ کے درمیان تفریق کی بات۔ چنانچہ عموماً مدونات فقیہ جو کسی مخصوص مذہب کے قواعد کے مطابق ہوتی ہیں وہ کسی ایک طریقہ کی پابندی ہوتی ہے اور کسی ایک ایسے منہج کو لازم پکڑتی ہیں جن میں خلف سے سلف کی ایک راہ کی حکایت کی جاتی ہے۔ رہے فتاوے اور نوازل تو یہ بہت مختلف ہوتے ہیں اور ان میں اکثر اجتہاد دیکھا جاتا ہے اگرچہ مؤلف سمجھتا ہے کہ وہ مطلق اجتہاد کا اہل نہیں ہے لیکن جب فتویٰ دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے
Flag Counter