Maktaba Wahhabi

221 - 224
حضور جواب دہی کے لیے حاضری کو یاد کرتا ہے۔ اور اسی لیے کتب نوازل میں ایسے فقہی ذخیرے ہیں جو کسی خاص فقہی مذہب کی تصنیفات سے بہت مختلف ہیں اور یک ایک ایسی بات ہے جس پر طالب علم کو آگاہ رہنا چاہیے اور اسی سے اس شخص کی کھلی ہوئی تردید ہوتی ہے جو کہتا ہے اجتہاد کے دروازے بند ہیں اور اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ فقہاء امترحمہم اللہ لوگوں کی مشکلات اور صورتحال میں ان کے ساتھ رہتے تھے، کیونکہ فتاوے اور نوازل پیش آئند قضیئے پر توجہ دیتے ہیں ۔ لہٰذا جب کوئی واقعہ پیش آتا یا مشکل سامنے آتی تو عالم غوروخوض کرتا اور اجتہاد کرتا اور بصیرت سے کام لیتے ہوئے بسا اوقات اپنے مذہب کی مخالفت کرجاتا تھا۔ اس سلسلے میں امام بہوتی حنبلیرحمہ اللہ کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ ان سے ایک استفتاء کیا گیا تو حنبلی مذہب کے خلاف فتویٰ دیا۔ اس پر کسی نے عتاب کرتے ہوئے انہیں لکھا کہ ’’آپ نے یہ فتویٰ دیا ہے‘‘ جبکہ آپ کی کتاب ’’کشاف القناع‘‘ میں ایسے ایسے ہے لہٰذا فتویٰ مذہب کے موافق نہیں ہے۔ اس پر امام بہوتیرحمہ اللہ نے بہت سخت جواب دیا اور فرمایا کہ: کولہو کے بیل سے کہہ دو کہ میں کتاب تالیف کرتے وقت اپنے مذہب کی روش پر چلا اور فتویٰ دیتے وقت اللہ کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا۔ ایسے ہی جب علماءرحمہم اللہ فیصلہ کرتے تھے تو کبھی کبھی مروجہ مذہب کا التزام نہیں کرتے تھے۔ اس لیے کہ قضاء تالیف و تصنیف سے الگ چیز ہے۔ لہٰذا قاضی اور مفتی اپنے مسلک کے خلاف بھی بغیر کسی تعصب و تردد کے اپنے نزدیک راجح مسائل کو لیا کرتے تھے۔ کیونکہ سبھی ایک چشمے سے سیراب ہوتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر و بیشتر اپنے مختار مذہب کو اس جیسے الفاظ سے پیش کرتے تھے: ’’یہ احوط ہے‘‘، یا ’’یہ أحسن ہے‘‘ اور یہ ’’مناسب ہے‘‘، ’’یہ مناسب نہیں ‘‘ یا ’’اسے ہم مکروہ سمجھتے ہیں ‘‘ یا ’’یہ مجھے پسند نہیں ‘‘ وغیرہ۔ کیونکہ ان کے یہاں نہ کوئی تنگی تھی، نہ تہمت و افتراء اور نہ ایسی رائے پر کوئی روک اور پابندی تھی جس کا کسی نص شرعی پر دارومدار ہو۔ بلکہ ان کے نزدیک وسعت افق اور سہولت و آسانی بہ نظر تھی۔
Flag Counter