Maktaba Wahhabi

334 - 389
فصل سوم: استصحاب سے استدلال میں جمہور اور ابن حزم کا اسلوب استصحاب کے حوالے سے اہل علم کے ہاں آرا میں فرق پایا جاتا ہے۔ جمہور فقہا استصحاب کے قائل ہیں جن میں چاروں مشہور فقہی مکاتبِ فکر شامل ہیں۔ استصحاب کی اصل ضرورت ان معاملات میں ہوتی ہے جن کے بارے میں شریعت میں صریح نصوص موجود نہیں ہیں۔ وہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان سے متعلق کیا طرز عمل اختیار کیا جائے؟ استصحاب درحقیقت صریح دلائل کی عدم موجودگی میں اشیا و معاملات کے حکم کو اسی پر باقی رکھنا ہے جس پر وہ پہلے سے ہے۔ جمہور علما کا تصورِ استصحاب فقہا میں نصوصِ کتاب و سنت کے ساتھ ساتھ قیاس و استحسان کے اسالیب کو برتنے کے دائرہ کار میں فرق پایا جاتا ہے۔ احناف اور مالکیہ کے ہاں قیاس کے ساتھ ساتھ استحسان کا استعمال بھی خاصا وسعت کا حامل ہے۔ دوسری طرف شافعیہ اور حنابلہ کے ہاں استحسان سے اعتنا نہیں کیا جاتا ۔اسالیبِ اجتہاد کے دائرہ کار کا یہی فرق استصحاب کے مجال عمل میں فرق پیدا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اہلِ استحسان کو استصحاب کے آلہ کی ضرورت کم ہی پڑتی ہے جب کہ استحسان کی نفی کرنے والے استصحاب کے لیے دامن میں وسعت کا پہلو رکھے نظر آتے ہیں۔[1] ابن قیم استصحاب کے تصور کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : "استدامة إثبات ما كان ثابتًا أو نفي ما كان منفيا."[2] استصحاب یہ ہے کہ جو جس حال میں ہے، اسے اسی حال میں قائم رکھا جائے؛ماضی میں موجود ہو تو آج بھی تسلیم کیا جائے،اور اگر کل معدوم تھا تو آج کے لیے نفی کی جائے۔ ان حضرات کے ہاں استصحاب مطلقاً حجت ہے،احکام کے نفی و اثبات، موجود و معدوم اور عقلی و شرعی تمام معاملات میں حجت ہے جب تک کہ اسے تبدیل کرنے والی کوئی دلیل سامنے نہ آ جائے۔ دوسری طرف حنفیہ کے ہاں استصحاب نفیاََ قابل اعتنا ہے جب کہ کسی کے حق کو اثباتاََ ثابت کرنے کے لیے حجت نہیں ہے۔ کما سیاتی ان شاء اللہ۔
Flag Counter