Maktaba Wahhabi

335 - 389
ابن حزم اور استصحاب ابن حزم اپنا تصورِ استصحاب بھی نصوص سے تعلق رکھتے ہوئے بیان کرتے ہیں۔ ان کے مطابق کسی معاملے کا حکم جو نص سے ثابت ہو چکا ہے، اب اگر اس میں کسی وجہ سے تبدیلی آ چکی ہے تواس بدلی ہوئی حالت میں حکم کے لیے بھی نص ہی درکار ہو گی جو یہ بتائے گی کہ یہ حکم تبدیل یا باطل ہو چکا ہے؛ بہ صورتِ دیگر لوگوں پر لازم ہے کہ وہ اسی قدیم حکم پر قائم رہیں۔ جمہور علما کے ہاں استصحاب مطلق بیان ہوا ہے جب کہ ابن حزم استصحاب کو نص کے ساتھ مقید کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: "والفرض على الجميع الثبات على ما جاء به النص ما دام يبقى اسم ذلك الشيء المحكوم فيه عليه لأنه اليقين والنقلة دعوى وشرع لم يأذن اللّٰه تعالى به فهما مردودان كاذبان حتى يأتي النص."[1] ’’تمام لوگوں پر یہ فرض ولازم ہے کہ وہ نص کے حکم پر قائم رہیں جب تک اس شے کا نام باقی ہے جس پر شرعی حکم عائد ہوا تھا کیوں کہ یہ بات یقینی ہے اور تبدیلی کا قول محض دعویٰ ، جس کی خدانے اجازت مرحمت نہیں فرمائی ۔ فلہٰذا تبدیلی اور بطلان حکم کے دعوے باطل ہیں، تاوقتے کہ ان کے متعلق نص پیش کردی جائے۔‘‘ یہاں واضح ہو جاتا ہے کہ ابن حزم کسی حکم کو ابتداََ نفیاََ یا اثباتاََ نص سے ملنے کی صورت میں اس سے استصحاب کے قائل ہیں، ورنہ نہیں۔ ان کے ہاں یہ بات بھی استصحاب کے بجاے نص ہی سے ثابت ہے کہ اشیا اپنی اصل اباحت پر قائم ہوں۔وہبہ الزحیلی لکھتے ہیں: "ان ابن حزم رحمه اللّٰه تعالى يقيد الإستصحاب بكون الأصل مبنيا على نص وليس على مجرد أصل ثابت من الإباحة الأصلية."[2] ابن حزم استصحاب کو نص پر مبنی ہونے کے ساتھ مقید کرتے ہیں محض اشیا کی اصل اباحت ہونے پر مدار نہیں رکھتے۔ اس پر اصولوں کے ضمن میں بات آئندہ آئے گی۔ تصورِ استصحاب کے ضمن میں تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ابنِ حزم کے ہاں استصحاب مقید بالنص بہ ظاہر تنگی کا حامل دکھائی دیتا ہے لیکن درحقیقت استصحاب تک پہنچنے کے لیے ان کے طریقَ کار سے استصحاب کے دامن میں سب سے بڑھ کر وسعت پیدا ہو گئی ہے۔ وہ ایسے کہ ابن حزم کے نزدیک دلیل کے قائم ہونے تک اشیاء میں اصل یہ ہے کہ وہ جائز ہے اور دلیل
Flag Counter