Maktaba Wahhabi

369 - 389
جب اس کی رہنمائی کی جائے تو وہ اس سے سوال کرے اسی طرح اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے۔اگر جوابا مفتی کہے جی ہاں ایسا ہی ہے ،تو اس پر زندگی بھر عمل پیرا رہے۔لیکن اگر وہ کہے کہ یہ میری رائے یا میرا قیاس یا فلاں کا قول ہے اور پھر اس کے حاملین اور متبعین کی فہرست گنوائے ،جن میں قدیم اور جدید فقہاء ہوں ،یا پھر اس سوال پر خاموش ہوجائے ،یا وہ سائل کو ڈانٹ دے یا کہے کہ مجھے علم نہیں،ایسی تمام صورتوں میں اس کی بات لے کر عمل کرنا حلال نہیں ہے، بلکہ اس کے بارے میں کسی اور سے سوال کرے۔ اس کی دلیل خدا تعالیٰ کا یہ قول ہے ’’تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے صاحب امر کی ‘‘ اس آیت میں اللہ رب العزت نے صاحب امر میں سے کسی کی اطاعت کا حکم نہیں دیا ، لہذا جس شخص نے کسیصاحب علم یا جماعت علماء کی تقلید کی وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے دامن کش رہا،اولی امر کا تابع فرمان ہوا۔ اس لئے جو شخص ان کی طرف اپنے مسائل میں لوٹا جن کا ذکر کیا گیا ہے ،اس نےاللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی کیوں کہ اللہ تعالی نےکہیں بھییہ حکم نہیں دیا کہ بعض اولی الامرکی اتباع کرو اور دیگر کو چھوڑ دوں۔‘‘ ابن حزم رحمہ اللہ کے مذکورہ بالا اقتباس سے یہ آشکار ہوتا ہے کہ ان کے ہاں تقلید کا باب مطلق طور پر نہ صرف بند ہے بلکہ تقلید حرام ہے جس کے نتیجے میں اہل علم کے لئے تو باب اجتہاد تا قیامت واہے ہی عام مسلمانوں کے لئے بھی وہ اجتہاد ہی کے قائل ہیں اور ان کے ہاں کا اجتہاد مفہوم یہ ہے: "بلوغ الجهد في طلب دین اللّٰه عزوجل الذی أوجبه على عباده."[1] ’’خدا تعالیٰ نے جس دین کا حصول اپنے بندوں پر واجب کیا ہے اس کی طلب و جستجو میں اپنی انتہائی کوشش صرف کردینا ہے۔‘‘ لہٰذا عالم کا بلاواسطہ قرآن و سنت سے علم دین کوا خذ کرنے کا نام اجتہاد ہوگا اور عامی علماء سے دین کو اس شرط پر اخذ کرے گا کہ وہ اس سے اس بات کی وضاحت کریں کہ جو کچھ وہ بتا رہے ہیں یہی اللہ اور اسکے رسول کا حکم ہے اور جب تک اسے اس کا علم نہیں ہو جاتا وہ کسی عالم یا مفتییا مجتہد کی بات پر عمل نہیں کرے گا جمہور اہل علم کا اجتہاد کے حوالے سے نکتہ نگاہ ابن حزم سے قدرے مختلف ہے جمہور محدثین بھی باب اجتہاد کو کھلا سمجھتے ہیں لیکن ان اہل علم کے لئے جن کے اندر اسکی استعداد موجود ہو اور اس استعداد کا وجود ہر دور میں ممکن ہے البتہ عام مسلمان کے لیے اتباع وتقلید کو جائز خیال کرتے ہیںلیکن اس رویہ کو ناپسند جانتے ہیں کہ کسی ایک ہی شخصیت کو حق کا امین خیال کیا جائے ،بلکہ پوری امت کے علماء سے اس سلسلہ میں استفادہ جاری رکھنا چاہیے اور تعصب و فرقہ واریت کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔لیکن مرجع اور مصدر کے طور پر قرآن وسنت کی اتھارٹی کوہی منوایا جائے اور قیاس و غیرہ کو اصول کے طور پر مستقل
Flag Counter