Maktaba Wahhabi

120 - 492
قبول کرلیا تو کیا انہیں دوبارہ نکاح کرنا ہوگا یا پہلا نکاح ہی قائم ہے؟ جواب۔مسلمان عورت کا کسی بھی کافر شخص سے نکاح کرنا شرعی طور پر باطل اور حرام ہے اور ان کے آ پس کے تعلقات بھی زنا شمار ہوں گے،اللہ تعالیٰ کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے ان پر واجب ہے کہ وہ علیحدگی اختیار کرلیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: ﴿وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ أُولَٰئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللّٰهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ﴾ "اور مشرک مردوں کے نکاح میں اپنی عورتیں نہ دو جب تک کہ وہ ایمان نہیں لاتے،ایمان والا غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے گو مشرک تمھیں اچھا ہی کیوں نہ لگے،یہ لوگ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے حکم سے جنت اور اپنی بخشش کی طرف بلاتا ہے۔"[1] اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے مسلمان عورت کے حلال نہ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ: ﴿لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ﴾ "نہ تو وہ(مسلمان عورتیں)ان(کافر مردوں)کے لیے حلال ہیں اور نہ ہی وہ(کافر مرد)ان(مسلمان عورتوں)کے لیے حلال ہیں۔"[2] امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ مشرک مرد مسلمان عورت سے شادی نہیں کرسکتا کیونکہ اس میں اسلام کی پستی وتوہین ہے۔[3] اور جب(کافر)شخص اسلام قبول کرلے(جیسا کہ سوال میں بھی ہے)تو اسے چاہیے کہ دوبارہ نکاح کرے کیونکہ اس کا پہلا نکاح تو باطل تھا اور اس کا شریعت اسلامیہ میں کوئی اعتبار نہیں۔شیخ عطیہ محمد سالم رحمۃ اللہ علیہ اضواء البیان کی تکمیل میں کہتے ہیں: سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہل کتاب کی کافرہ عورت مسلمان مرد کے لیے کیوں حلال ہے اور مسلمان عورت اہل کتاب کافر کے لیے کیوں حلال نہیں کی گئی۔اس کا جواب دو لحاظ سے دیاجاتا ہے:
Flag Counter