Maktaba Wahhabi

150 - 373
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی دو رکعتوں (نماز سنت)سے بڑھ کر اور کسی نفل کا خیال نہ رکھتے تھے۔[1] ایک اور روایت میں یوں ہے: "رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا" "فجر کی دو رکعتیں دنیا اور دنیا کی ہر چیز سے بہتر ہیں۔"[2] یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان دو رکعتوں کی اور نماز وتر کی اس قدر محافظت فرماتے تھے کہ سفر ہو یا حضر انھیں چھوڑتے نہ تھے۔ فجر کی دو رکعتیں اور نماز وتر کی ادائیگی کے علاوہ اور کسی نفل نماز کے سفر میں ادا کرنے کا اہتمام کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ ایک مرتبہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو سفر میں ظہر کی سنتیں پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:"اگر مجھے سنتیں پڑھنا ہوتیں تو میں فرض نماز بھی پوری پڑھتا (قصر نہ کرتا)۔"[3] امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ فرض نماز میں قصر کرنا ہے ،وتر اور فجر کی سنتوں کے علاوہ اور کسی نفل یا سنتوں کا اہتمام سے پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے:"[4] فجر کی سنتوں میں مختصر قیام کرنا مسنون ہے۔ اس بارے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی سنتوں میں مختصر قیام کرتے تھے۔ پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد" سورہ کافرون"جب کہ دوسری رکعت میں "سورہ اخلاص"کی قراءت کرتے تھے۔[5]اور کبھی پہلی رکعت میں سورہ بقرہ کی آیت:"قُولُوا آمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا"[6]اور دوسری رکعت میں سورہ آل عمران کی آیت: "قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ"پڑھتے تھے۔[7]اسی طرح مغرب کے بعد کی سنتوں میں"سورۃ کافرون"اور سورۃ اخلاص"پڑھتے تھے۔[8]جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:"ما أحصي ما سمعت من رسول صلى اللّٰه عليه وسلم يقرأ في الركعتين بعد المغرب وفی
Flag Counter