Maktaba Wahhabi

49 - 373
الْمَاءُ ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعِيدَ الْوُضُوءَ وَالصَّلَاةَ" "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا کہ اس کے قدم کا درہم بھرحصہ (وضو کا پانی نہ لگنے کی وجہ سے)خشک رہ گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وضو اور نماز دونوں کو دہرانے کا حکم دیا۔"[1] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ويلٌ للأعقابِ مِن النار" ’’(خشک رہ جانے والی)ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔‘‘ [2] اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے ذمہ داری کی ادائیگی میں سستی واقع ہوتی ہے جس کی وجہ سے ایڑیوں کا ایک حصہ خشک رہ گیا تو اسی بنا پر ایڑیوں کو عذاب ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إِنَّهَا لا تَتِمُّ صَلاةُ أَحَدِكُمْ حَتَّى يُسْبِغَ الْوُضُوءَ كَمَا أَمَرَهُ اللّٰهُ تعاليٰ فَيَغْسِلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ وَيَمْسَحَ بِرَأْسِهِ وَرِجْلَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ . . ." "کسی شخص کی نمازتب تک کامل نہ ہوگی جب تک وہ اللہ کے حکم کے مطابق مکمل وضو نہ کرے گا۔ وہ اپنا چہرہ دھوئے، کہنیوں تک بازو دھوئے اور سر کا مسح کرے ،پھر ٹخنوں تک پاؤں دھوئے۔"[3] میرے مسلمان بھائی!کامل اور اچھی طرح وضو کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ پانی ضرورت سے زیادہ استعمال کیا جائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ عضو پر مناسب حد تک بہایا جائے حتی کہ وہ خوب صاف ہو جائے۔ بلا ضرورت کثرت سے پانی کا استعمال اسراف ہے جس سے منع کیا گیا ہے بلکہ کبھی پانی کے کثرت استعمال کے باوجود مطلوبہ طہارت حاصل نہیں ہو تی۔ اگر قلیل پانی سے مکمل وضو ہو جائے تو یہ کافی ہے۔ ایک روایت میں ہے: "كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ ، وَيَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ إِلَى خَمْسَةِ أَمْدَادٍ" "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد پانی سے وضو اور ایک صاع سے لے کر پانچ مد تک پانی سے غسل کر لیا کرتے تھے۔"[4] پانی کے استعمال میں اسراف (فضول خرچی) سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
Flag Counter