Maktaba Wahhabi

50 - 127
ترجمہ:’’ منافقوں کو ہر وقت اس بات کا کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی سورت نہ اترے جو ان کے دلوں کی باتیں انہیں بتلا دے۔ کہہ دیجئے کہ مذاق اڑاتے رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ اسے ظاہر کرنے والا ہے جس سے تم ڈر دبک رہے ہو ۔اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ، اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں۔تم بہانے نہ بناؤ یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بےایمان ہوگئے اگر ہم تم میں سے کچھ لوگوں سے درگزر بھی کرلیں تو کچھ لوگوں کو ان کے جرم کی سنگین سزا بھی دیں گے‘‘۔ مذکورہ بالا آیت کا سبب نزول ملاحظہ فرمائیں : سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ’’ غزوہ تبوک میں ایک شخص نے ایک مجلس میں مذاق اڑاتے ہوئے کہا :’’ ہم نے اپنے ان قاریوں ( اشارہ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تھا )سے بڑھ کر پیٹ کا پجاری ، زبان کا جھوٹا اور لڑائی کے میدان میں بزدل اور ڈرپوک نہیں دیکھا ‘‘ اس مجلس کے ایک دوسرے شخص نے کہا :’’ تو جھوٹا ہے ، منافق ہے ، میں اس کی اطلاع نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور دوںگا ‘‘ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو اس بارے میں قرآن ِحکیم کی مذکورہ آیت نازل ہوئی ـ۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ : ’’ میں نےاس منافق کو دیکھا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کا پالان پکڑا ہوا ہے اور پتھروں پر سے گھسٹتا ہوا جا رہا ہے اور کہہ رہا ہے :’’ اے اللہ کے رسول ! ہم تو ہنسی مذاق اور تفریح کر رہے تھے ‘‘ ـ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے جا رہے تھے : ’’ کیا تم اللہ ، اس کی آیتوں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مذاق کر رہے تھے‘‘۔[1] استہزاء کا معنیٰ ومفہوم : اللہ سبحانہ وتعالیٰ پرطعنہ زنی کرنا، اس کا تمسخر اڑانا، اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر طعنہ زنی اور ان کا تمسخر
Flag Counter