Maktaba Wahhabi

82 - 127
ڈستے رہتے ہیں اور وہ زندگی یوں گزارتے ہیں جیسے دکھوں کے منوں بوجھ تلے دبے ہوئے ہوں اور اس بوجھ میں تخفیف کے آثار بھی دکھائی نہ دیتے ہوں۔ انسان کسی بھی گروہ سے تعلق رکھتا ہو، اسے دکھوں سے مفر نہیں، یہ الگ بات ہے کسی کو کم اور کسی کو زیادہ دکھوں سے واسطہ پڑتا ہے اور زندگی اسے پہاڑ نظر آنے لگتی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ مصائب و آلام سے چھٹکارا حاصل کر ے مگر وہ اس طرح گلے کا ہار بن جاتے ہیں کہ روایتی کمبل کی طرح چھوڑنے کا نام نہیں لیتے۔ گلے کا ہار بننے والے ان دکھوں کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا، کسی بھی پہلو سے وہ زندگی کے لئے عذاب بن سکتے ہیں۔ مسلسل ناکامیاں اور حوصلہ شکن محرومیاں انہیں جنم دیتی ہیں اور غم کے اندھیرے غاروں میں جاگراتی ہیں۔ اقتصادی بدحالی، معاشرتی ناہمواری، عدم مساوات، ظلم و ستم، ناانصافی اور ریاستی جبر بھی اس کے اسباب میں سے ہیں، جس سے انسان کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے اور جسمانی قوت اس طرح متاثر ہوتی ہے کہ وہ صدیوں کا بیمار نظر آنے لگتا ہے۔ اس دکھ بھری دنیا کے سمندر میں تنکے کی طرح بہنے کے باوجود انسان ہاتھ پاؤں ضرور مارتا ہے اور یہ کوشش کرتا رہتا ہے کہ دکھوں سے نجات پالے اور غموں کے بھنور سے باہر آ جائے۔ واضح رہے کہ مصیبتوں اور دکھوں کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں ۔ایک نفسیاتی اور روحانی ، دوسری جسمانی اور بیرونی ذیل میں نفسیاتی اور روحانی پریشانیوں کا بالتفصیل ذکر کرنا چاہوں گا۔ نفسیاتی پریشانیاں:نفسیاتی پریشانیوں سے مراد وہ تمام نفسیاتی امراض اور جلد اثر کر جانے والے جذبات ہیں جن کی وجہ سے انسان اپنا توازن اور خود پہ کنٹرول کھو بیٹھتا ہے۔اگر چہ اس طرح کی پریشانیاں بہت زیادہ ہیں اور ان پر علیحدہ علیحدہ بالتفصیل بحث ہو سکتی ہے لیکن ہم ان میں سے صرف انہی کا ذکر کریں گے جن کا عام طور پر لوگ شکار ہوتے ہیں۔ الهم:(پریشانی) انسان کا معمولی و غیر معمولی چیزوں کے بارے مسلسل پریشان رہنا ’الہم‘ کہلاتا ہے ۔ بعض اوقات
Flag Counter