Maktaba Wahhabi

23 - 56
۴۔ خاں صاحب بریلوی اور مولانا حسین احمد رحمۃ اللہ علیہ نے انبیاء کی حیات کو شہداء کی منصوصی حیات سے ممتاز فرمایا ہے کہ انبیاء کی حیات قوی ہے مگر اس طرح شہداء کو مقیس علیہ قرار دے کر انبیاء کی حیات کو ثابت کرنا درست نہ ہوگا اقوی کو اضعف پر قیاس کرنا اصول کی تصریحات کے خلاف ہے۔ ۵۔ انبیاء کے ترکہ کی تقسیم اور نکاح ازواج کی حرمت کی علّت اگر واقعی دنیوی زندگی ہے تو اس کا حکم شہداء کی آواز اور ترکہ کے متعلق بھی یہی ہونا چاہیئے خاں صاحب اور مولانا نے اس میں خلاف کی صراحت فرمائی ہے ۔ اس لئے حیات انبیاء کے لیے سورۃ بقرہ اور آل عمران کی آیات کو اساسی نہیں قرار دنا چاہیئے۔ ۶۔ ایسے اوہام کو عقیدہ کہنا بھی صحیح معلوم نہیں ہوتا کتب عقائد (شرح عقائد نسفی، عقیدہ طحاویہ، شرح العقیدہ الاصفہانیہ عقیدہ صابونیہ وغیرہ) میں اس کا کوئی ذکر نہیں حالانکہ کتب عقائد کے سارے مشمولات کے مستقل عقیدہ کی حیثیت بھی محل نظر ہے عقیدہ کے لیے حسب تصریح متکلمین واشاعرہ وماتریدیہ قطعی دلائل کی ضرورت ہے حیات انبیاء کی احادیث اسناد کے لحاظ سے اخباراحادصحیحہ سے بھی فروتر ہیں۔ کما لایخفی علی من لہ نظڑ فی فن الرجال۔ ۷۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے وقت بعض امہات المومنین کی عمر بہت کم تھی خان صاحب بریلوی نے اہل اللہ کی حیاتِ دنیوی کے ساتھ شب باشی کا راستہ بھی کھول دیا (ملفوظات جلد ۳ ص۳۶) (لاحول ولا قوۃ الا باللہ( اکابر دیوبند صرف زندگی کے قائل ہیں اور خیال فرماتے ہیں کہ عقلاً زندگانی کافی ہے حالانکہ حقوق زوجیت کے لیے صرف حیات کافی نہیں کیا اس قسم کے بھونڈے استدلال سے پرہیز ہی زیادہ مناسب نہ تھا؟ ۸۔ موت کی پوری حقیقت تو معلوم نہیں بظاہر فوت جسم اور روح کے انفصال کا نام ہے جہاں تک ہمیں معلوم ہے اس پرشریعت نے عدت اور تقسیم ترکہ کے احکام مرتب فرمائے ہیں اہل سنت موت کے جسم اور روح کے غیر شعوری تعلق کو مانتے ہیں عدم محض اور کلی فقدان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لیے مولانا محمد زاہد صاحب کے ارشادات کا آخری حصہ بالکل بے ضرورت ہے پاکستان کے اہل توحید انبیاء علیہم السلام کے متعلق موت کی کسی نئی قسم کے قائل نہیں۔
Flag Counter