Maktaba Wahhabi

43 - 76
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کامقصد اپنے گھروالوں کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کیگھروالے قرار دے کرانکے قابل اعتماد ہونے کا آپ کویقین دلانا تھاپس ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فرمائے ہوئے اس جملے سے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کاتعین کرنے کی کوشش کرنامحض جہالت ہے ،اسی طرح مؤلف رسالہ نے زیر عنوان’’رخصتی ‘‘ میں بی بی عمرہ بنت عبدالرحمن کی روایت کاذکرہے کہ انھوں نے بی بی عائشہ رضی الله عنہا سے کہاکہ اپنی رخصتی کااحوال بیان کریں تو بی بی نے وہ واقعہ بیا ن کیااوربقول مؤلف رسالہ اس میں بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے جھولاجھولنے کاکوئی ذکر نہیں ہے جو بعض دوسری روایات میں ملتاہے پھر مؤلف صاحب فرماتے ہیں کہ: ﴿ رخصتی کے سلسلہ میں یہ دونوں روایات آپ کے سامنے ہیں پہلی روایت ابن سعد کی ہے جس کوایک سنی مؤرخ کہاگیاہے اسکوشروع سے آخرتک پڑھیں تواسمیں کہیں آپکو کسی لفظ یا جملے سے ام المؤمنین کی کم سنی نظر نہیں آئے گی﴾ معلوم نہیں ہم اسے فاضل مؤلف کی بددیانتی کہیں یابدحواسی کہ جس ابن سعد کوقرشی صاحب قابل اعتماد اورسنی فرمارہے ہیں ان ہی کے طبقات ابن سعد کی یہ روایت بھی ہمارے سامنے ہیجس میں بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے کم سن ہونے کاثبوت صاف طورپر موجودہے آیئے اس حدیث کے الفاظ ملاحظہ فرمایئے: ﴿ تزوجنی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فی شوال سنۃ عشرمن النبوۃ قبل الھجرۃ بثلاث سنین وانا ابنہ ست سنین وھاجررسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ققدم المدینۃ یوم الاثنین لاثنتی عشرۃ لیلۃ خلت من شھر ربیع الاول واعرس بی فی شوال علی رأس ثمانیۃ ثمانیۃ اشھر من المھاجر وکنت یوم دخل بی ابنۃ تسع سنین ٭ طبقات ابن سعد، سنن النبی وایامہ ص۱۸۸ ج۲ ﴾ یعنی ’’بی بی عمرہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا سے سناوہ فرماتی تھیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عقد باندھامیری عمراس وقت چھ سال تھی اورجب انکے پاس میری رخصتی ہوئی اوروہ میرے پاس آئے اس وقت میری عمرنو سال تھی‘‘اب تو قرشی صاحب کوبی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ عمر تسلیم کرلینی چاہیے کیونکہ اب تو ابن سعدجوبقول انکے سنی روای ہیں بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمروہی بیان کررہے ہیں جو صحیح بخاری و مسلم کے راوی بیان
Flag Counter