Maktaba Wahhabi

205 - 702
نکاح رکھنے اور فسخ کرنے کا اختیار دے دیا۔ کما مَر پس مطلب حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا جو آیت قرآن و جملہ روایات کے ملانے سے ظاہر ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ بقائے نکاح اور اس کا نفاذ بغیر امر ایم کے اور بغیر اذن بکر کے نہیں ہو سکتاہے۔ تو اگر کسی باکرہ کا نکاح اس کے ولی نے اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ کر دیا اور وقت عقد کے لڑکی کو اس کی اطلاع نہ ہوئی یا اس سے اجازت نہیں لیا تو وہ عقد صحیح ہوگیا، لیکن اس کے باقی رکھنے اور فسخ کرنے کا اختیار لڑکی کو حاصل ہے۔ پس جب بالغہ باکرہ کا نکاح بغیر اس کے اذن و اطلاع کے ولی کر دے اور شرعاً وہ نکاح باطل و فاسد نہیں ہوتا ہے تو نابالغہ کا نکاح ولی کے کر دینے سے بدرجہ اولی فاسد و باطل نہیں ہوگا ۔ البتہ بعد بلوغ و علم نکاح کے فسخ کا اختیار لڑکی کو ہے۔ کما ھو مذھب جماعۃ من الأئمۃ، وھوالقوي من حیث الدلیل، واللّٰه أعلم بالصواب۔ [جیسا کہ یہ ائمہ کی ایک جماعت کامذہب ہے اور دلیل کے اعتبار سے یہی قوی ہے] کتبہ العبد الفقیر إلی اللّٰه تعالی أبو الطیب محمد شمس الحق العظیم آبادی عفا اللّٰه عنہ و عن آبائہ۔ و صلی اللّٰه تعالی علی خیر خلقہ محمد وآلہ وأصحابہ أجمعین، وآخر دعوانا أن الحمد للّٰه رب العالمین۔ 36۔ باپ کی ممانعت کی صورت میں کسی دوسرے کو ولی بنا کر بیوہ کا نکاح کرنا: [1] سوال : کیا فر ماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ ایک عورت بیوہ ہے اور اپنا نکاح کرانا چا ہتی ہے، لیکن عورت مذکورہ کا باپ کچھ تو اس وجہ سے کہ حسب رواج جہالت قدیمہ بیوہ کے نکاح کو برا جانتا اور توہین سمجھتا ہے، دوسرے اس وجہ سے کہ وہ خود تو بد دین ہے، توحید و سنت والوں کو وہابی وغیرہ کہتا ہے اور اس امر پر ہر گز راضی نہیں ہے کہ اس کی دختر ایسے آدمی سے نکاح کرے، اور عورت مذکورہ بدعت شرک وغیرہ سے تائب ہوگئی ہے اور نماز کی پابند ہے، اور یوں چاہتی ہے کہ کسی دین دار آدمی سے نکاح ہوجائے، تو اس صورت میں شریعتِ اسلام یہاں
Flag Counter