مذہب اسلام ہے۔ (۶) چونکہ یہ صلح مسلمانوں کی امن پسندی کا واضح ثبوت تھا۔ لہٰذا بہت سے قبائل نے مسلمانوں سے معاہدے کرنے شروع کردئیے۔ شرائط صلح کے نتائج اب ہم دیکھیں گے کہ صلح حدیبیہ کی بظاہر ان توہین آمیز شرائط کے نتائج مسلمانوں کے حق میں کتنے مفید ثابت ہوئے؟ شرط نمبر1کا نتیجہ: صلح نامہ کی شرط نمبر1کی رو سے مسلمان ۷ ھ کو عمرہ کر سکتے تھے۔ اور تین دن مکہ میں قیام کرسکتے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلے سال اعلان کردیا کہ جو لوگ صلح حدیبیہ میں شریک تھے۔ سب عمرہ کے لیے تیار ہوجائیں۔ جب حضور ا اس جمعیت کو لے کر مکہ پہنچ گئے ۔ تو قریش مکہ اس قدر ذلت برداشت کرنے کی تاب نہ لاسکے۔ کہ مسلمان اس قدر آزادی سے کعبہ کا طواف کریں۔ مگر معاہدہ کی رُو سے اس بات کی اجازت دے چکے تھے۔ اس کا حل انہوں نے یہ سوچا کہ تین دن کے لیے مکہ خالی کردیا۔ اور کوہ ابوقعیس پر چڑھ گئے۔ جہاں سے مسلمانوں کی ہر نقل و حرکت بخوبی نظر آتی تھی۔ اب شہر خالی تھا اور ایک طرح مسلمانوں کے قبضہ میں تھا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے کوئی موقعہ شناس جرنیل ہوتا تو اس موقعہ سے ضرور فائدہ اُٹھاتا۔ لیکن آپ نے دشمن کا ایک پیسہ کا بھی نقصان نہیں کیا اور امن وامان کو برقرار رکھ کر وعدہ وفائی کی ایک اور مثال قائم کردی اس کا دوسرا اثر یہ ہوا کہ کعبہ میں صرف قریش ہی تو نہیں تھے۔ دیگر تمام قبائل عرب بھی عمرہ کرنے آئے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کی تعداد کو دیکھ کر اندازہ کرلیا۔ کہ اب کعبہ کا سیاسی اقتدار بھی مسلمانوں کے قبضہ میں آنے ہی والا ہے۔ جس کی یہ تمہید ہے۔ پھر آنے والے واقعات نے ان تاثرات کو حقیقت کا جامہ پہنا دیا۔ شرط نمبر2کے نتائج: حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ کو اس کے والد اور قریش کے سفیر سہیل بن عمرو اپنے ساتھ لے |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |