ہی نہ تھا کہ وہ ا سلام کے دشمن تھے۔بلکہ وہ طرح طرح گھنا ؤ نے جرائم سے مسلمانوں کو اور خود پیغمبر اسلام کو مختلف طریقوں سے ایذا پہنچاتے رہتے تھے۔اور کھلے میدان میں لڑنے سے بھی گریز کرتے تھے۔ ابو جہل اور اس کا بیٹا عکرمہ‘ ابو سفیان‘ امیہ بن خلف غرض بیشمار ایسے افراد کا نام لیا جاسکتا ہے جو اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں حد سے بڑھے ہوئے تھے۔اور جنہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ جانے کے بعد بھی پیچھا نہ چھوڑا۔لیکن ان کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی خیال نہیں آیا کہ انہیں خفیہ طریقہ سے ٹھکانے لگا دیا جائے جس کی وجہ یہ تھی کہ یہ دشمنی کرتے تھے تو شریفانہ اور کھلے طور پر کرتے تھے۔میدان جنگ میں سامنے بھی آتے رہے۔ لیکن جن چند افراد کو حضور اکرم نے خفیہ طور پر ٹھکانے لگوادیا ۔وہ کمینہ دشمن تھے۔معاہد تھے لیکن بد عہد‘ ان کا جرم بھی ایک نہیں تھا۔پھرمیدان جنگ میں آنے کی بجائے کمین گاہوں سے نقصان پہنچانے والے تھے۔ان کی مختصر سرگزشت درج ذیل ہے:۔ کعب بن اشرف: اشرف عربی النسل تھا اور اس کی بیوی بنو نضیر قبیلہ یہود کے سردار حیی بن اخطب کی بیٹی تھی۔لہٰذا مدینہ میں اس کا بہت وقار تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانی دشمن تھا۔جنگ بدر میں کافروں کی شکست کے بعد ان میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھی۔کعب بڑا چوٹی کا شاعر اور فصیح اللسان تھا۔ابو سفیان کے دورہ مدینہ کے بعد یہ مکہ گیا اور قریش مکہ کو خوب بھڑکایا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو بھی کرتا تھا۔واپس مدینہ آکر اس نے مسلمان عورتوں کے متعلق اشعار کہہ کر ان پر دہ نشینوں کو رسوا اور بدنام کرنا شروع کردیا تھا۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کہا : ’’کون ہے جو کعب بن اشرف کی خبر لیتا ہے۔اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت تکلیف دی۔‘‘ ایک صحابی محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ[1] اٹھے اور کہنے لگے۔’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے ہیں کہ اسے قتل کردوں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہاں‘‘ محمد بن مسلمہ صکہنے لگے۔’’اچھا پھر مجھے اجازت دیجئے میں جو چاہوں اس سے کہہ لوں۔‘‘ (یعنی اپنی باتوں سے اسے اپنے دام میں پھنسا لوں) |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |