سٹور میں جمع کرایا جائے گا۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: «کَانَ عَلٰی ثِقْلِ النَّبِیّ صلی الله علیه وَسَلَّمَ رَجُلٌ یُقَاتِلُ لَهُ کِرْکِرَةٌ فَمَاتَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلِیْهِ وَسَلَّمَ هُوَ فِیْ النَّارِ فَذَهَبُوْ ا یَنْظُرُوْنَ اِلِیْهِ فَوَجَدُوْا عَبَاءَةً قَدْ غَلَّهَا»[1] (آنحضرت ا کے زنانہ پر ایک آدمی متعین تھا۔ جس کا نام کِرکرہ تھا (وہ حبشی تھا اور تہامہ کے حاکم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور تحفہ بھیجا تھا) وہ مرگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’وہ دوزخ میں ہے۔ لوگوں نے اس کو جاکر دیکھا (اس کے مال اسباب کی تلاشی لی) تو لوٹ کے مال کی ایک کملی اس میں پائی جو اس نے چرائی تھی۔) اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ: «ثم انصرفنا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰه علیه وسلم مَعَهُ عَبْدٌ یُقَالُ لَهُ مِدْعَمٌ اَهْدَاهٔ لَهُ اَحَد بَنِی الصّبابِ فَبَیْنما هُوَ یَحُطُّ رَحْلَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اِذْجَاءَهَ سَهْمٌ عَائِرٌ حَتّٰی اَصَابَ ذٰلِكَ الْعَبْدَ۔ فَقَالَ النّاسُ هَنِیْئًا لَهُ الشَّهَادَةُ. فِقَالَ رَسُوْلَ اللّهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَلٰی وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِه اِنَّ الشِّمْلَةَ الَّتِیْ اَصَابَهَا یَوْمَ خَیْبَرَ مِنَ الْمَغَانِمَ۔ لَمْ تُصْبِهَا الْمَقَاسِمُ تَشْتَعِلُ عَلَیْهِ نَارٌ۔ فَجَاءَ رَجُلٌ حِیْنَ سَمِعَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِشِرِاكٍ اَوْشِرَاکِیْنِ فَقَالَ! ٰهَذَا شَیْئٌ کُنْتُ اَصَبْتُهُ . فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمْ شِرَاكٌ اَوْ شِرَاکِیْنَ مِنْ نَّارٍ» (پھر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (خیبر) واپس لوٹے اور وادی القری میں آئے۔ آپ کے ساتھ ایک غلام تھا جسے مدعم کہتے تھے۔ یہ غلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضباب کے ایک شخص نے بطور تحفہ بھیجا تھا یہ غلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کجاوہ اتار رہا تھا اتنے میں ایک ناگہانی تیر اس کو آلگا۔ جس سے وہ مرگیا ۔ لوگ کہنے لگے اس کو مبارک ہو شہیدا ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں نہیں۔ اس نے ایک چادر جو خیبر کے دن تقسیم سے پہلے چرائی تھی وہ آگ ہو کر اس کو جلا رہی ہے ۔ یہ سُن کر ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جوتی کا ایک تسمہ یا دو تسمے لے کر آیا۔ اور کہنے لگا میں نے یہ لُوٹ کے مال سے لیے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اگر تو داخل نہ کرتا) تو یہ ایک تسمہ یا دو تسمے آگ بن جاتے ‘قیامت میں تجھ کو |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |