کہ حضراتِ مفسرین نے بیان کیا ہے… چار درجِ ذیل ہیں:
ا: اللہ تعالیٰ کے ازراہِ نوازش خود اپنے کیے ہوئے وعدے کی بنا پر اس کا واجب ہونا ہے۔[1]
ب: جن و انس کے رزق کے انہیں پہنچنے کی قطعیت اور حتمیت کو اُجاگر کرنے کی خاطر۔[2]
ج: مکلّفین کے دل و دماغ میں اس حقیقت کو راسخ کرنے کی غرض سے۔[3]
د: مکلّفین کو رزق طلب کرتے ہوئے غیر شرعی، غیر ضروری جدوجہد سے باز رکھنے کے لیے۔[4]
iii: [وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ إِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا] [اور زمین میں چلنے والا کوئی جان دار نہیں، مگر اس کا رزق اللہ تعالیٰ ہی کے ذمے ہے] میں پہلے [مَا] النافیۃ، پھر [مِنْ دَآبَّۃٍ] حرف جار، اسم نکرہ اور پھر استثناء کے لیے [إِلَّا] کے استعمال سے جملے میں حصر کی بنا پر حسب ذیل دو معانی ہیں:
پہلا معنیٰ: زمین میں چلنے والے ہر جان دار کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔
دوسرا معنیٰ: زمین میں چلنے والے ہر جان دار کا رزق اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے ذمے نہیں۔
دونوں جملوں کے ملانے سے معنیٰ درج ذیل ہو گا:
[زمین میں چلنے والے ہر جان دار کا رزق اللہ تعالیٰ ہی کے ذمے ہے]۔
iv: (مُسْتَقَرَّہَا وَ مُسْتَوْدَعَہَا) کی تفسیر میں متعدد اقوال ہیں۔ انہی میں سے
|