معلوم اور متعین ہے۔ {وَ کُلُّ شَيْئٍ عِنْدَہٗ بِمِقْدَارٍ}[1]
[ترجمہ: اور ہر چیز اُن کے ہاں، ایک اندازے سے ہے]۔
{وَ إِنْ مِّنْ شَيْئٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَآئِنُہٗ وَ مَا نُنَزِّلُہٗٓ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ}[2]
[ترجمہ: اور کوئی چیز بھی نہیں، مگر ہمارے پاس اس کے خزانے ہیں، اور ہم اسے نہیں اتارتے، مگر ایک معلوم اندازے سے]۔
v: چوتھی آیت میں اللہ تعالیٰ نے [رزق میں کشادگی اور تنگی کا اختیار] اپنے پاس رکھنے کی علّت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: [إِنَّہٗ کَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرًا بَصِیْرًا] [3]
[بلاشبہ وہ ہی ہمیشہ سے اپنے بندوں کی پوری خبر رکھنے والے خوب دیکھنے والے ہیں]۔
آیت کے اس ٹکڑے اور اس کی قوت و زور کو سمجھنے کی خاطر درجِ ذیل پانچ باتوں کو پیش نظر رکھنا شاید مفید ہو:
ا: اللہ تعالیٰ نے جملے کی ابتدا لفظ توکید [إِنَّ] [یقینا] سے فرمائی۔
ب: (إِنَّہٗ) میں [ہٗ] ضمیر الشان استعمال فرما کر تنبیہ فرمائی، کہ اس کے بعد کی جانے والی بات بہت اہمیت اور شان و عظمت والی ہے۔
ج: لفظ [کَانَ] استعمال فرما کر اس حقیقت کو اجاگر فرمایا، کہ اس جملے میں اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں کے بارے میں خَبیرََا بَصِیْرًا] ہونے کی دی گئی خبر، کوئی نئی بات نہیں، بلکہ وہ ہمیشہ سے ایسے ہی ہیں۔
د: جملے میں تقدیم و تاخیر ہے۔ معمول کی ترتیب [إِنَّہٗ کَانَ خَبِیْرًا
|