Maktaba Wahhabi

94 - 206
قرآن حکیم کا عربی زبان میں اترنا تاکہ عربی کا فہم رکھنے والے اس کتابِ مقدس کو سمجھ سکیں، یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ نصوصِ قرآنی کے معانی معلوم ومفہوم ہوسکتے ہیں ، ورنہ قرآن مجید کے عربی اور غیر عربی میں نازل ہونے میں کوئی فرق نہ ہوتا… پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کیلئے قرآن پاک بیان کرنا اس کے لفظ اور معنی دونوں کے بیان کو شامل ہے (تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معنی بیان کرنا نصوصِ قرآنی کا معنی سمجھنے کیلئے ہے اور سمجھنا ممکن ہے اور سمجھنا چاہیئے) عقلی دلیل :اس پر عقلی دلیل یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک کتاب نازل فرمائے، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرمائیں ،اور اس کتاب اور گفتگو سے مقصود لوگوں کی ہدایت ہولیکن اس کتاب یا گفتگو کا سب سے اہم مسئلہ (صفاتِ باری تعالیٰ) کا معنی ناقابلِ فہم ہو اور بمنزلہ حروفِ تہجی ہو کہ کسی حرفِ تہجی سے معنوی اعتبار سے کچھ نہیں سمجھا جاسکتا ؟؟ ۔۔۔ یہ تو ایک ایسی سفاہت ہوگی جس کا اللہ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ قطعی انکار کرتی ہے ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا اپنی کتاب کی بابت ارشاد ہے : [ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ۝۱ۙ ][1] ترجمہ: یہ ایک ایسی کتا ب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں، پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم باخبر کی طرف سے۔ یہاں ہم نے عقلی دلائل سے یہ ثابت کردیا کہ نصوصِ صفات کے معانی معلوم ہیں…
Flag Counter