Maktaba Wahhabi

478 - 728
سے بے نکاح مردوں اور عورتوں کا نکاح کر دو۔‘‘ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کو خبر دی کہ زمانۂ جاہلیت میں چار طرح سے نکاح ہوتے تھے: ایک صورت تو یہی تھی، جیسے آج کل لوگ کرتے ہیں ، ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی زیرِ پرورش لڑکی یا اس کی بیٹی کے نکاح کا پیغام بھیجتا اور اس کی طرف پیش قدمی کر کے اس سے نکاح کرتا۔۔۔ پھر جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم حق کے ساتھ رسول بن کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے تمام نکاح باطل قرار دیے۔ صرف اس نکاح کو باقی رکھا، جس کا آج کل رواج ہے ۔۔۔ حسن رحمہ اللہ سے آیت:﴿فَلَا تَعْضلوْھُنَّ﴾ کی تفسیر میں مروی ہے، کہ ہمیں معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ یہ آیت انہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ معقل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی بہن کا نکاح ایک شخص سے کر دیا تھا۔ اس نے اسے طلاق دے دی، لیکن جب عدت پوری ہوئی تو وہ شخص پھر اس (میری بہن) سے نکاح کا پیغام لے کر آیا۔ میں نے اس سے کہا: میں نے تم سے (اپنی بہن کا) نکاح کیا۔ اسے تیری بیوی بنایا اور تمھیں عزت دی، لیکن تم نے اسے طلاق دے دی اور اب پھر تم اس سے نکاح کا پیغام لے کر آئے ہو! ہرگز نہیں ، الله کی قسم! اب میں تمھیں کبھی اسے نہ دوں گا۔ وہ شخص (ابو البداح) کوئی آدمی برا نہیں تھا اور عورت بھی اس کے پاس واپس جانا چاہتی تھی، تو الله تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’تم ان (عورتوں ) کو مت روکو‘‘ میں نے عرض کی: یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ! اب میں کر دوں گا۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر انھوں نے اپنی بہن کا نکاح اس شخص سے کر دیا] اگر ولی نکاح میں رکاوٹ بنے؟ سوال: ہندہ (جوثیبہ ہے) کے والدین اس کا نکاح عمرو سے کرنا چاہتے ہیں ۔ ہندہ اس کو منظور نہیں کرتی۔ وہ کہتی ہے کہ میرا نکاح خالد سے کر دو۔ والدین اس کو منظور نہیں کرتے۔ اہلِ محلہ نے و نیز علمائے محلہ نے ہندہ کے والدین کو سمجھایا کہ ہندہ کی مرضی کے مطابق اس کا نکاح کر دو، لیکن والدین کسی طرح بھی راضی نہیں ہوتے اور ہندہ بھی اپنی ضد پر اڑی ہوئی ہے اور ہندہ نے بھی ہر طرح سے والدین کے رضا کی کوشش کی، مگر ناکام رہی۔ ایسی صورت میں اگر ہندہ بلا رضائے والدین خالد سے نکاح کرے تو کیا یہ نکاح درست و نافذ ہوگا اور اگر امورِ نکاح کے انجام دہی کے لیے والدین کے علاوہ کسی شخص کو سرپرست مقرر کرے تو اس کا یہ فعل درست ہوگا؟ المستفتی: مولوی عبد المجید بن مولوی عبد اللطیف۔ بنارس۔ مدنپورہ۔ جواب: اس صورت میں والدِ ہندہ کو چاہیے کہ ہندہ کا نکاح خالد سے کر دے، بشرطیکہ اس میں کوئی محذور شرعی (جیسے بے دینی وغیرہ) نہ ہو اور اگر والدِ ہندہ اس صورت میں ہندہ کا نکاح خالد سے نہ کر دے تو وہ ولایتِ ہندہ سے معزول ہوجائے گا اور اس صورت میں اگر ہندہ بلا رضائے والد دوسرے کے اذن سے جس کا درجہ ولایت والد کے بعد ہو، خالد سے نکاح کر لے تو یہ نکاح درست و نافذ ہوگا اور مجرد ہندہ کا کسی شخص کو جو اس کا ولی نہ ہو، سرپرست مقرر کر کے اس کے اذن سے
Flag Counter