Maktaba Wahhabi

418 - 868
جائز ہے کہ کوئی دوسرا اس کی طرف سے حج و عمرہ اسلام (یعنی فرض) ادا کر دے،کیونکہ خود اس کے لیے ادائیگی انتہائی مشکل ہے۔لیکن اگر یہ نفلی حج ہو یا عمرہ تو اس میں وسعت ہے۔کوئی حرج نہیں کہ کوئی دوسرا اس کی طرف سے ادا کرے۔تاہم کچھ علماء کے نزدیک بہتر بلکہ واجب ہے کہ بندہ خود کرے جبکہ وہ ادائیگی کے قابل ہو،خواہ یہ نفل ہی ہو۔(مجلس افتاء) اعمال عبادت پر اجرت و عوض لینے کا مسئلہ سوال:ایک آدمی اپنی فوت شدہ بیوی کی طرف سے ایک آدمی کو حج کے لیے بھیجنا چاہتا ہے،مگر یہ نائب آدمی شیعہ ہے،جبکہ وہ فوت ہونے والی سنی تھی۔کیا متوفیہ کو پورا ثواب مل جائے گا،جیسے کہ اگر وہ اپنی زندگی میں خود کرتی؟ اور ایسے نائب کا کیا ثواب ہوتا ہے؟ جواب:اس متوفیہ کی طرف سے نیابت حج کے لیے کسی کو بھیجنا بالکل جائز اور صحیح ہے۔صحیح بخاری میں ہے،باب من مات و عليه نذر: "حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور کہا کہ میری بہن نے حج کرنے کی نذر مانی تھی مگر وہ فوت ہو گئی ہے۔تو آپ نے پوچھا:اگر اس کے ذمے قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتا یا نہیں؟ اس نے کہا:کیوں نہیں!آپ نے فرمایا:تو اس کی طرف سے حج کر،اللہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس کا حق ادا کیا جائے۔"[1] علاوہ ازیں امام بخاری رحمہ اللہ نے الجامع الصحیح میں یہ باب (مسائل) ذکر کیے ہیں کہ "مرد عورت کی طرف سے حج کرے۔" حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میری والدہ نے نذر مانی تھی کہ وہ حج کرے گی،مگر حج کرنے سے پہلے ہی وہ فوت ہو گئی ہے،تو کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ فرمایا:کیوں نہیں،اس کی طرف سے حج کر۔بھلا اگر والدہ پر قرضہ ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتی یا نہیں؟اس نے کہا:کیوں نہیں۔آپ نے فرمایا:"اللہ کا (قرض) ادا کر،اللہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس کی ادائیگی کی جائے۔" [2] امام بخاری رحمہ اللہ کا استدلال یہ ہے کہ آپ کے لفظ " اقضو" (ادائیگی کر) مردوں اور عورتوں سب کو شامل ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری (شرح صحیح بخاری) میں لکھتے ہیں:"اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں کہ مرد عورت کی طرف سے یا کوئی عورت مرد کی طرف سے حج کر سکتی ہے۔صرف ایک حسن بن صالح کا اختلاف ذکر
Flag Counter