Maktaba Wahhabi

40 - 73
جو شخص دین میں کسی کام کو ایجاد کرے یا ایجاد کرنے والے کو پناہ دے تو ایسے شخص پر خدا اور رسول،ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت ہوتی ہے اور اللہ تعالی ایسے آدمی کے کسی نیک کام کو بھی قبول نہیں فرماتے۔ بخاری میں ایک روایت ہے حضرت عائشہ سے ارشاد ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا:جو شخص ہمارے اس دین میں کوئی کام نیا ایجاد کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔او کما قال۔ مسلم میں روایت ہے ارشاد ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا:اپنی طرف سے ایجاد کردہ امور سب سے برے ہوتے ہیں اور ہر ایک بدعت گمراہی کا سبب ہوتی ہے۔اوکما قال۔ انسان کی ایسی تمام ایجاد کردہ صورتیں قابل ازالہ ہیں،حدیث شریف میں ہے: مَنْ رَأیٰ مِنْکُمْ مُنْکَراً فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہِ فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہِ فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہِ،وَذٰلِکَ أضْعَفُ الإیْمَانِ۔(مسلم) جو شخص تم میں سے کسی برے کام کو دیکھے تو اس کو اپنے ہاتھ سے بدل دے اور اگر اتنی طاقت نہ ہوتو زبان سے کہہ دے اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو دلی نفرت کرے اور یہ ایمان کا سب سے ادنیٰ درجہ ہے۔(مسلم) اور جو حدیث کفایہ شعبی میں ہے جس سے جاہلوں نے استدلال کر کے تعزیہ کے جواز کو ثابت کیا ہے اس کی تفصیل یہ ہے۔ شعبی اپنی کتاب کفایہ میں فرماتے ہیں: أن رجلا جاء إلی النبي صلی اللّٰهُ علیہ وسلم فقال یا رسول اللّٰهِ إنی حلفت أن أقبل عتبۃ باب الجنۃ والحور العین،
Flag Counter