Maktaba Wahhabi

38 - 184
سے ان کے ساتھ جنگ کے ذیلی احکامات مثلاً: زخمیوں کا خاتمہ، اور بھاگنے والوں کو پکڑنا وغیرہ الگ الگ لاگو ہوتے ہیں،اہل علم نے یہ احکامات باغیوں سے جنگ کے ابواب میں بیان کئے ہیں ۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’خوارج سے لڑنے کا حکم صرف اس بنا پر نہیں کہ وہ چور ،ڈاکو اور باغیوں کی طرح لوگوں پر ہتھیار اٹھا رہے ہیں اس لیے خوارج سے لڑنا چاہیے؛ کیونکہ چور ،ڈاکو وغیرہ سے لڑائی اس وقت تک ہوتی ہے کہ ان کا زور ٹوٹ جائے، اور بدی سے باز آ کر اطاعت کرنے لگیں،چور ڈاکو جہاں بھی ملیں قتل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا،وہ قومِ عاد کی طرح ملیامیٹ نہیں کئے جائیں گے، نیز وہ آسمان کے نیچے بد ترین مقتول بھی نہیں ہیں،انہیں حملہ کر کے قتل کرنے کا حکم نہیں دیا، بلکہ جب معاملہ انتہائی بگڑ جائے تو انہیں قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘ تو اس سے معلوم ہوا کہ خارجیوں کو قتل کرنے کا حکم جس سبب کی بنا پر دیا گیا ہے وہ دین سے خروج ہے؛ کیونکہ انہوں نے اتنا زیادہ غلو کیا کہ دین سے سے باہر ہو گئے، یہی بات حدیثِ علی میں ہے: (وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار ہو جاتا ہے، تم انہیں جہاں بھی پاؤ قتل کر دو) اس حدیث میں خوارج سے قتال کا حکم ان کے دین سے نکل جانے پر مرتب کیا گیا،تو اس سے واضح ہو گیا کہ یہی خارجیوں سے لڑائی کا موجب ہے۔ پھر آگے چل کر ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : اس سے ثابت ہوا کہ خارجیوں سے قتال ان کی خاص صفت [دین سے باہر نکل جانے]کی وجہ سے ہے، اس لیے نہیں کہ وہ باغی ہیں یا جنگجو ہیں،یہ صفت خارجیوں میں انفرادی اور اجتماعی ہر اعتبار سے مکمل طور پر پائی جاتی ہے ۔ نیز سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کے رونما ہوتے ہی فوری طور پر ان سے اس لیے لڑائی نہیں لڑی کہ ابھی تک سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے ان کی صفات مکمل طور پر واضح نہیں ہوئیں تھیں،
Flag Counter