Maktaba Wahhabi

39 - 184
پھر جب انہوں نے ابن خباب کو قتل کیا اور لوگوں کے مال مویشیوں کو لوٹا تو سیدنا علی کے لیے ان کی حقیقت عیاں ہو گئی کہ : (خارجی بت پرستوں کو چھوڑ کر اہل اسلام کو قتل کریں گے) پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو علم ہوا کہ یہی دین سے نکلنے والے خارجی ہیں ۔ [سیدنا علی کی خوارج کے ساتھ جنگ میں تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ] اگر آپ ان کی لوٹ مار سے پہلے جنگ شروع کر دیتے تو خدشہ تھا کہ عرب قبائل ان کے حق میں اٹھ کھڑے ہوتے اور علی کے خلاف ہو جاتے۔۔۔"[1] اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تاتاریوں کے خلاف جنگ کے لیے ابھارتے ہوئے کہا تھا: "محقق علمائے کرام کے ہاں تاتاریوں کا حکم مسلمان حکمران کے خلاف بغاوت کرنے والوں جیسا نہیں ہے جو کہ حاکمِ وقت کی اطاعت سے انکار کر دیں اور علم بغاوت بلند کر دیں،جیسے کہ اہل شام نے امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیا تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ شامی مسلمانوں نے حاکمِ وقت کی اطاعت سے ہاتھ کھینچا تھا یا وہ ان کی حکمرانی کا ازالہ چاہتے تھے، جبکہ تاتاری تو اسلام سے ہی خارج ہیں،ان کا حکم زکاۃ روکنے والوں اور خارجیوں کا ہے، خارجیوں سے سیدنا علی نے جنگیں بھی لڑیں،[اس فرق کی ]وجہ سے سیدنا علی نے اہل بصرہ ،شام اور اہل نہروان سے جنگ کرنے کا انداز قدرے مختلف تھا چنانچہ شام اور بصرہ میں جنگ کے دوران آپ کا رویہ بھائی کا بھائی کے ساتھ والا رویہ تھا جبکہ خوارج سے لڑائی کے وقت اس کے برعکس تھا۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نصوص واضح طور پر ثابت ہیں اور صحابہ کرام کا اجماع بھی ہے کہ سیدنا صدیق نے مانعین زکاۃ سے قتال کیا اور سیدنا علی نے خوارج سے جنگیں لڑیں،جبکہ اہل شام اور اہل بصرہ کے ساتھ رونما ہونے والے فتنے اور دنگے کے متعلق نصوص بھی موجود ہیں،تاہم صحابہ کرام اور تابعین کا ان کے بارے میں اختلاف تھا"[2]
Flag Counter