Maktaba Wahhabi

47 - 122
اور ہر خلافِ سنت کام ان کے نزدیک خبیث ہے ‘لہٰذا کرسی پر بیٹھنا خباثت ہے۔اسی طرح ان کے فلسفۂ سنت کی رو سے کراچی سے لاہور جانے کے لیے اونٹ کی سواری ‘ گاڑی کی سواری سے افضل ہے۔وہ اس پر بھی مصر ہیں کہ ہاتھ سے کھانا سنت ہے اور چمچ سے کھانا خباثت ہے ‘عمامہ اور تہبند باندھنا ہی سنت ‘ باعث ثواب اور بلندی ٔدرجات کا سبب ہے‘ وغیر ذٰلک۔ان میں سے بعض حضرات نے تو اِس درجہ غلو اختیار کیا کہ قرآن کی طباعت‘ پاروں اور رکوعوں کی تقسیم‘ قرآن کے اعراب و حرکات تک کو یہودی سازش قرار دیا ہے کیونکہ اللہ‘کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام نہ کیا تھا۔ہمارے خیال میں یہ نقطہ نظر بوجوہ غلط افکار پر مشتمل ہے۔اس کے قائلین ایک ایسی چیز کو دین قرار دے رہے ہیں جس کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’دین‘‘ قرارنہیں دیا ہے۔لہٰذا یہ حضرات سنت کا ایسا م تصور پیش کر رہے ہیں جو اُمت مسلمہ کی چودہ سو سال کی تاریخ میں پیش نہیں ہوا۔ہاں اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص ان افعال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور تعلق کے اظہار کی نیت سے اد اکرتا ہے تو ان شاء اللہ العزیز اس نیت و ارادہ کے ثواب کا مستحق ٹھہرے گا۔ذیل میں ہم اس گروہ کے افکار کا ایک علمی اور تحقیقی جائزہ لے رہے ہیں۔قرآن مجید میں ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ ِانْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَـکُمْ ذُنُوْبَکُمْط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.﴾(آل عمران) ’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!)آپ ان سے کہہ دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو ‘اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا ‘اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ اتباع کے لفظ کا مادہ’تبع‘ ہے۔’لسان العرب‘ میں ہے کہ معروف لغوی فراء نے اتباع کا معنی ’’ان یسر الرجل و أنت تسیر وراء ہ‘‘ بیان کیا ہے۔یعنی کوئی شخص چلے اور تم اس کے پیچھے چلو تو یہ اس کی اتباع ہے۔پس اتباع کے لغوی معنی پیروی کرنے اور پیچھے چلنے کے ہیں۔ اس آیت کا سیاق و سباق یہ بتلا رہا ہے کہ کچھ لوگوں نے عہد نبوی میں اللہ سے محبت کا دعویٰ کیا تو اُن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔جمہور مفسرین کا کہنا یہ ہے کہ یہ آیت مبارکہ نجران کے اس عیسائی وفد کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو اللہ سے محبت کے دعوے دار تھے لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور آپ کی بات ماننے سے انکاری تھے۔اس آیت مبارکہ کے شانِ نزول کے بارے میں چار اقوال مروی ہیں‘ جن کا تذکرہ علامہ ابن جوزیؒ نے اپنی تفسیر’ زاد المسیر‘ میں کیا ہے۔یہ اقوال درج ذیل ہیں: (۱) یہ آیتِ مبارکہ ان مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو اللہ سے محبت کے دعوے دار تھے‘ جیسا کہ قرآن نے آیت مبارکہ﴿مَا نَعْبُدُھُمْ اِلاَّ لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰیط﴾(الزمر:۳)میں اس طرف اشارہ کیا ہے۔یعنی مشرکین کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ اللہ کے غیر کی عبادت بھی اللہ کے قرب کے حصول کے لیے کرتے تھے۔یہ قول ضحاکؒ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا ہے۔
Flag Counter