Maktaba Wahhabi

51 - 122
اپنے باپ کو شیطان کی عبادت کے بالمقابل اپنی پیروی کی تبلیغ کی۔اسی طرح حضرت ہارون علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو بچھڑے کی پرستش میں خواہش نفس کے پیچھے چلنے کی بجائے اپنی اتباع کا حکم دیا۔علاوہ ازیں مذکورہ بالا آیات میں خواہش نفس‘ شیطان اور گمان وغیرہ کی پیروی کو مذموم قرر دیا گیا ہے اور اس کے بالمقابل دین اسلام ‘ وحی الٰہی اور نبی ؑ کی اتباع کا حکم جاری کیا گیا ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابراہیم ؑ کے طریقے کی اتباع کا جوحکم دیا گیا ہے یا مسلمانوں کے بارے میں یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں ‘کیونکہ انہوں نے ان کی اتباع کی ہے یا مسلمانوں کو بھی قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ؑ کی اتباع کا جو حکم دیا گیا ہے‘ تو اس سے کیا حضرت ابراہیم ؑ کے ہر ہر فعل کی پیروی مراد ہے؟یقینا ایسا نہیں ہے‘ کیونکہ حضرت ابراہیم ؑ کا ہر ہر طریقہ نہ تو کسی آسمانی کتاب میں محفوظ ہے ‘ نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کیا گیا ہے اور نہ ہی حضرت ابراہیم ؑ کی شریعت ہمارے لیے بھی شریعت ہے۔اس سے مراد بعض مخصوص معاملات مثلاً شرک سے اجتناب وغیرہ میں حضرت ابراہیم ؑکی پیروی ہے۔قرآن کی آیت﴿اَلَّذِیْنَ اتَّـبَعُوْہُ فِیْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ﴾(التوبۃ:۱۱۷)بھی اس بات کی دلیل ہے کہ بعض اوقات اتباع کا لفظ ایک محدود دائرے میں کسی کے پیچھے چلنے کے معنی میں بھی استعمال ہو جاتا ہے۔اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے﴿وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا اِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ یَّـتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ ط﴾(البقرۃ:۱۴۳)میں بھی اتباع سے مراد ذاتی خواہش کے بالمقابل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرناہے۔خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اتباع کالفظ وحی اور سابقہ ابنیاء علیہم السلام کی پیروی کے لیے استعمال ہوا ہے‘ جیسا کہ اللہ کا فرمان﴿اِنْ اَتَّبِعُ اِلاَّ مَا یُوْحٰی اِلَیَّ ج﴾اور﴿اِنَّمَا اَتَّبِعُ مَا یُوْحٰی اِلَیَّ ج﴾(الاعراف:۲۰۳)اور﴿اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًاط﴾ہے۔ جس طرح اتباع سے مراد ہر ہر فعل کی پیروی نہیں ہے‘ اسی طرح یہ بات کہنا کہ اتباع میں محبت شامل ہے‘ یا یہ کہ اطاعت اور اتباع میں اصل فرق یہ ہے کہ اطاعت بغیر محبت کے ہوتی ہے اور اتباع محبت کے ساتھ اطاعت کا نام ہے ‘یہ بھی پورے طور پر درست معلوم نہیں ہوتی۔ہاں‘ اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اتباع و اطاعت کا کمال بغیر محبت کے حاصل نہیں ہو سکتا‘ لیکن انہیں محبت سے مشروط کرنے کے لیے دلیل درکار ہے۔اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اہل لغت میں سے کسی ایک نے بھی اتباع کے مفہوم میں یہ بات بیان نہیں کی ہے کہ اتباع سے مراد محبت یا دلی آمادگی کے ساتھ کسی کی اطاعت کرنا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن نے اتباع کو جن معانی میں استعمال کیا ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اتباع کے لیے ضروری نہیں ہے کہ محبت بھی اس میں شامل ہو‘ جیسا کہ ارشاداتِ باری تعالیٰ﴿قَالُوْا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لاَّ اتَّـبَعْنٰـکُمْ ط﴾ (آل عمران:۱۶۷)اور﴿ذَرُوْنَا نَتَّبِعْکُمْج﴾(الفتح:۱۵)اور﴿فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطِیْعُوْا اَمْرِیْ.﴾(طٰہٰ)اور﴿وَیَتَّبِعُ کُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍ.﴾(الحج)وغیرہ ہیں۔پہلی دونوں آیات منافقین کے بارے میں ہیں اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ان کی اتباع کبھی بھی محبت کے ساتھ نہیں ہو تی تھی۔تیسری آیت
Flag Counter