پیہم جدوجہد سے حق (جسے انہوںنے گم گشتہ کرنے کی پوری کوشش کی تھی)اپنے اصل نصاب کی طرف لوٹ آیا،ویسے بھی بے پردگی کے قائل حضرات کے فتاویٰ جات، مؤمن اورمعصوم عورتوںکی صفوںمیں پذیرائی حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ بعض معاصر مفتی حضرات جو حجاب کے مسئلہ میں بڑے واضح تساہل کے مرتکب ہوئے اور ان کا یہ تساہل انتہائی تلخ صورتِ حال کاذریعہ بنا ،یعنی :ان کافتویٰ صرف اس ماحول میں مؤثر ثابت ہوا جو پہلے ہی سے بے پردگی کی دلدل میں پھنسا ہواتھا، اور اس پر مستزاد یہ ہے کہ ان مفتی حضرات کے اپنے شبہ کی بناء پر بے پردگی کی معصیت کی نحوست،خود ان پربے برکتی اور ناپسندیدگی کا خول چڑھاگئی،کسی کہنے والے نے کیاخوب کہاہے: ألا إنما العینان للقلب رائد فما تألف العینان فالقلب یألف یعنی:آنکھیں تو دل کاقاصد ہیں،جوکچھ آنکھیں چاہتی ہیں وہی دل بھی چاہتا ہے۔ چند اہم فوائد (۱) تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ عورت کا اپنے چہرے اورہاتھوں کوڈھانپنا زیادہ بہتر اورخوب احتیاط کاباعث ہے،یہ بات انہوں نے اس مسئلہ میں اختلاف سے چھٹکارا حاصل کرنے اور افضل رائے پر عمل کرنے اور شبہات سے بچ کر رہنے کی خاطر کہی ہے،جب یہ بات ثابت ہوگئی توپھر احتیاط لازم کیجئے اور مفتی حضرات کے فتاویٰ سے صرفِ نظر کیجئے ۔ |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |