الضرورت انہیں کھولنے کے جواز کے متعارض ہے،مثلاً:کبھی کبھی خاتون کو طبیب کے سامنے یا عدالت میں قاضی کے سامنے چہرہ کھولنا پڑتا ہے(تویہ جواز وجوباً ڈھانپنے کے متعارض ہے) جواب:ضرورت کامعاملہ،ضرورت تک محدودہے،لہذا عورت کیلئے اپنا چہرہ اور ہاتھ بلکہ بدن کا کوئی بھی حصہ بوقتِ ضرورت کھولنا جائز ہے۔ بعض اوقات ضرورت اس امر کی متقاضی ہوتی ہے کہ عورت اپنی شرمگاہ تک سے پردہ اٹھادے ،توپھر کیا اس ضرورت سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہوگے کہ شرمگاہ کو مطلقاً کھولنا درست ہے؟یہی کہاجائے گا کہ رخصت بقدرِ ضرورت ہوتی ہے(لہذا عند الضرورت جب خاتون،کسی طبیب یاقاضی کے سامنے اپنا چہرہ کھولے گی تو یہ محض جواز کی حد تک ہے،جب یہ ضرورت ختم ہوجائے گی تو فوراً چہرے کوڈھانپ لے گی۔ اڑتا لیسواں شبہ (یہ لوگ کہتے ہیں)عورت خرید وفروخت کے موقع پر اپنے چہرے کو ظاہر کرنے کی محتاج ہوتی ہے،نیز کسی چیز کے لینے یادینے میں بھی ہاتھوں کو باہر نکالنا پڑجاتاہے؟ جواب: عورت لازمی نقاب کرے گی اور ہاتھوں میں دستانے پہنے گی اور اسی پردہ کے ساتھ مذکورہ تمام امور انجام دے گی،صرف ایک آنکھ کے کھلا رکھنے کا جواز ذکر ہوچکا ہے۔ واقع میں جو کچھ ہورہا ہے وہ بہترین دلیل ہے،چنانچہ خواتین،قدیماً وحدیثاً اپنے مکمل حجاب کے ساتھ خرید وفروخت اور لینے دینے کے معاملات کرتی آرہی ہیں اور کررہی ہیں ۔ |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |