Maktaba Wahhabi

69 - 360
ا: جب ابو ایوب انصاری اور ہبار بن اسود رضی اللہ عنہما (احرام کے باوجود) حج نہ کرپائے، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں عمرہ کر کے احرام کھولنے کا حکم دیا۔[1] ۲: امام شافعی نے فرمایا: ’’ سب سے زیادہ حرمت والے دن اس بات کے زیادہ لائق ہیں ، کہ ان میں (عمرے کے) اعمال ادا کیے جائیں۔ [2] علاوہ ازیں امام بغوی نے لکھا ہے: ’’ أَمَّا الْعُمْرَۃُ فَجَمِیْعُ أَیَّامِ السَّنَۃِ وَقْتٌ لَہَا إِلَّا یَکُوْنَ مُتَلَبِّسًا بِالْحَجِّ۔‘‘ [3] [’’جہاں تک عمرے کا تعلق ہے ، تو سال کے سارے دن اس کے لیے وقت ہیں، سوائے حج میں مشغول شخص کے (کہ وہ جب تک مناسکِ حج میں مشغول ہو، عمرہ نہ کرے)۔‘‘] یہی رائے درست معلوم ہوتی ہے۔ واللہ تعالیٰ أعلم۔ ۲۔سفرِ حج میں عمرہ کرنا: ۳۔حج کو ختم کر کے عمرے میں تبدیل کرنا: زمانۂ جاہلیت کے لوگ حج کے مہینوں شوال ، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ میں عمرہ کرنا ایک سنگین ترین گناہ سمجھتے تھے۔ وہ ان مہینوں میں صرف حج کرتے اور عمرے کے لیے مستقل سفر کی مشقت برداشت کرتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں حضرات صحابہ کو حج فسخ [4] کر کے پہلے عمرہ اور پھر حج کرنے کا حکم دے کراس مشقت کو آسانی میں تبدیل کر دیا۔ اس بارے میں ذیل میں توفیقِ الٰہی سے تین
Flag Counter