Maktaba Wahhabi

185 - 465
اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتْ لَھُمَا سَوْاٰتُھُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْھِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ﴾[1] ’’ پھر جب انھوں نے اس درخت کو چکھ لیا تو ان کی شرمگاہیں ظاہر ہوگئیں اور وہ جنت کے پتے ان پر چپکانے لگے۔‘‘ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ ’ حیاء ‘ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی کی جبلت وفطرت میں ہی رکھ دی گئی تھی۔اور اسی لئے یہ فطری حیاء ہر انسان میں موجود ہوتی ہے۔اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ ارشاد فرمایا کہ : ((وَلَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتّٰی تُسْتَأْذَنَ )) ’’ اور کنواری لڑکی کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے اجازت نہ لے لی جائے۔‘‘ تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: ( وہ تو شرماتی ہے تو ) اس کی اجازت کیسے ہوگی ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَنْ تَسْکُتَ )) ’’ یہ کہ وہ خاموش ہوجائے۔‘‘[2] یہ بھی فطری حیاء ہے جو ہر کنواری لڑکی میں ہوتی ہے۔ 2۔ایمانی حیاء ’’ ایمانی حیاء سے مراد یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی سے ڈرتے ہوئے حرام کاموں سے اجتناب کرے۔‘‘ اور یہ حیاء انسان میں اس طرح آتی ہے کہ وہ ہر وقت، ہرجگہ اللہ تعالی کو نگران تصور کرے۔جب وہ اللہ تعالی کو نگران تصور کرے گا اور اسے یقین ہوگا کہ اللہ تعالی اسے ہر وقت اور ہر جگہ دیکھ رہا ہے، سن رہا ہے اور اس کی تمام حرکات وسکنات اس کے علم میں ہیں تو وہ اس سے حیاء کرتے ہوئے اس کی نافرمانی سے اجتناب کرے گا۔ اللہ تعالی کافرمان ہے : ﴿ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا﴾ [3] ’’ یقینا اللہ تعالی تمھارے اوپر نگران ہے۔‘‘ اسی طرح اس کا فرمان ہے : ﴿وَاللّٰہُ بَصِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ﴾[4] ’’ اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالی اسے خوب دیکھ رہا ہے۔‘‘ اسی طرح فرمایا : ﴿ اِِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ﴾[5] ’’ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالی اس سے یقینا پوری طرح با خبر ہے۔‘‘
Flag Counter